ڈاکٹر محمد دین تاثیر بیسویں صدی کی دوسری چوتھائی کی ایک غیرمعمولی ادبی شخصیت تھے اور علم، ذوق اور ذہانت کی یکجائی کی ایک بہت بلیغ مثال تھے۔ وہ نہایت بے چین اور مضطرب مزاج کے مالک تھے مگر ان کی یہ بے چینی مثبت اور اور اضطراب تخلیقی تھا۔ تاثیر نہ صرف یہ کہ ایک خوش گو شاعر تھےبلکہ ایک انتہائی نکتہ رس اور نکتہ سنج نقاد بھی تھے اور اس کے ساتھ ہی نکتہ طرازی بھی ان کے مضامین کا ایک ایسا جوہر تھا جو بہت کم نقادوں کو ارزانی ہوتا ہے۔ دوسروں کے اُٹھائے ہوئے سوالات تو حل ہوتے ہی رہتے ہیں مگر صورتِ حال کے گہرے اور ہمہ گیر جائزے کے بعد اپنے سوالات اُٹھانا بہت دشوار کام ہے۔ تاثیر کا مختصر سے مختصر مضمون اور چھوٹے سے چھوٹا تبصرہ دیکھ لیجیے، اس میں ایسے نئے سوالات کا بہرحال سامنا کرنا پڑتا ہے جو علمی اور فنی کرید کو بیدار کرتا ہے۔ اُردو تنقید میں یہ تاثیر کا بہت بڑا کارنامہ ہے۔ تنقید میں وہ کہیں کہیں بے لحاظ بھی نظر آتے ہیں جو کہ ان کی حق گوئی کی پیداوار ہے، مگر وہ بدلحاظ کبھی نہیں ہوئے۔
’’مقالاتِ تاثیر‘‘ کا مصنف معلومات کا ایک سمندر تھا، اور اس کی معلومات صرف شعر و ادب پر ہی نہیں بلکہ جملہ فنونِ لطیفہ پر پھیلی ہوئی تھیں۔ اس بات کی بھرپور کوشش کی گئی ہے کہ محمد دین تاثر کا ہر اہم نثر پارہ اس تاریخی مجموعے میں شامل ہو جائے۔ البتہ جہاں مضامین میں تکرار کا احتمال تھا، وہاں بہتر نثر پارہ منتخب کر لیا گیا اور دوسرے کو چھوڑ دیا گیا۔ لیکن یہ بھی ممکن ہے کہ تاثیر کے اِکّا دُکّا ایسے مقالات، دیباچے اور تبصرے اب بھی موجود ہوں جو عدم دستیابی کی وجہ سے اس مجموعے میں شامل نہ ہو سکے ہوں۔ البتہ اس بات کو پورے وثوق سے کہا جا سکتا ہے کہ کسی نقاد کا اتنا بھرپور مجموعۂ مضامین اُردو میں شاذ ہی شائع ہوا ہو، جتنا کہ محمد دین تاثیر کا یہ مجموعہ۔