یوری پیڈیز یونان قدیم کے تین بڑے المیہ نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے۔ وہ 480قبل مسیح جزیرہ سلامس میں پیدا ہوا۔ اس کو کامرانیاں تخلیقی شعبہ میں حاصل ہوئیں اور وہ دنیا کے المیہ نگاروں میں ممتاز حیثیت کا مالک بن گیا۔ یوری پیڈیز کے تعلقات اپنے عہد کے مشہور فلسفیوں انازوگرس، سقراط اور دیگر سے بہت گہرے تھے۔ اس طرح زندگی ادب فلسفہ اور زبان کے بہت سے نکات سیکھے۔ اس کا محبوب مشغلہ کتابوں اور شاعروں کا مطالعہ تھا۔ یوری پیڈیز نے دو شادیاں کی اور دونوں ناکام ہوئیں۔ یوری پیڈیز کی المیہ تصانیف کی تعداد 75، 87 اور 92 بتائی گئی ہے لیکن افسوس ہے کہ صرف 18 دستبرد زمانہ سے محفوظ رہ سکیں۔ اس کے مشہور ڈرامہ میں جذبات کی شدت خصوصاً عورت کی بے پناہ محروم محبت کی تصویر کشی کی گئی ہے۔ اوربتایا گیا ہے کہ اس کا ضمیر صرف جذبات سے گوندھا گیا ہے اور جب وہ محروم ہوجاتی ہے تو قیامت بن جاتی ہے۔ عورت آج بھی دوسرے اور تیسرے درجے میں زندگی گزار رہی ہے لیکن آج سے اڑھائی ہزار برس پہلے یوری پیڈیز نے عورت کو اپنا دفاع کرنے کے لئے اور بادشاہ کے فیصلے کے خلاف احتجاج کرنے کے لیے زبان دی۔
میڈیا یوری پیڈیز کی عظیم تخلیق ہے۔ یہ ایک ایسی عورت کی کہانی ہے جس نے محبت کے لیے گھر بار چھوڑ دیا۔ اس ڈرامے ’’میڈیا‘‘ کا موضوع ظلم اور انتقام ہے یہ موضوع یوری پیڈیز کا محبوب موضوع ہے اور اس کے ڈراموں میں اس کے نقوش نمایاں طور پر پائے جاتے ہیں۔ اس ڈرامہ کا تاثر منفی رہا ہے لیکن اس پر دوبارہ رائے قائم کرنے کی ضرورت ہے۔ اس ڈرامے کے آٹھ کردار ہیں۔ (۱) میڈیا، (۲) جیسن (میڈیا کا خاوند)، (۳) کیران (کارنتھ کا حکمران)، (۴) ایجیس (ایتھنز کا بادشاہ)، (۵) میڈیا کی نرس، (۶) میڈیا اور جیسن کے دو بچے (۷) بچوں کا نگران ملازم، اور (۸) ایک قاصد۔ لیکن سب سے جاندار مکالمے میڈیا اور کیران کے درمیان ہیں کیونکہ میڈیا کا زورِ خطابت عروج پر ہے۔ ان مکالمات کو پڑھنے کے بعد قاری سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا اڑھائی ہزار برس پہلے کا لکھا ہوا یہ ڈرامہ آج بھی حقیقت نہیں؟ اس ڈرامے کا پہلا اردو روپ 1977ء میں شائع ہوا جو عبدالشکور مرحوم کی کاوش کا نتیجہ تھا۔ یونانی سے انگریزی میں منتقل ڈرامے کا موجودہ اُردو ترجمہ احمد عقیل روبی نے کیا ہے