بلبل ہند، فصیح الملک نواب مرزا داغؔ وہ عظیم المرتبت شاعر ہیں جنہوں نے اردو غزل کو اس کی حرماں نصیبی سے نکال کر محبت کے وہ ترانے گائے جو اردو غزل کے لئے نئے تھے۔ داغ ؔنے اردو غزل کو ایک شگفتہ اور رجائی لہجہ دیا اور ساتھ ہی اسے بوجھل فارسی تراکیب سے باہر نکال کے قلعہ معلی کی خالص ٹکسالی اردو میں شاعری کی جس کی داغ بیل خود داغؔ کے استاد شیخ ابراہیم ذوقؔ رکھ گئے تھے۔ نیا اسلوب سارے ہندوستان میں اس قدر مقبول ہوا کہ ہزاروں لوگوں نے اس کی پیروی کی اور ان کے شاگرد بن گئے۔ زبان کو اس کی موجودہ شکل میں ہم تک پہنچانے کا سہرا بھی داغؔ کے سر ہے۔ داغؔ ایسے شاعر اور فنکار ہیں جو اپنے فکر و فن،شعر و سخن اور زبان و ادب کی تاریخی خدمات کے لئے کبھی فراموش نہیں کئے جائیں گے۔ داغؔ نے پانچ دیوان چھوڑے جن میں 1028 غزلیں ہیں۔ داغؔ ہی ایسے خوش قسمت شاعر تھے جس کے شاگردوں کی تعداد ہزاروں تک پہنچ گئی۔ علامہ اقبال اور مولانا ظفر علی خاں ان کے شاگرد تھے۔ داغؔ اچھی صورت کے ساتھ ساتھ موسیقی کے بھی رسیا تھے۔
داغؔ کی شاعری ایک محور پر گھومتی ہے اور وہ ہے عشق! جنسی محبت کے باوجود انہوں نے عاشقانہ جذبات کا بھرم رکھا ہے اور نفسیاتی بصیرت کا اظہار ان کے یہاں جا بجا ملتا ہے۔ داغؔ کی شاعری میں شبابیات، عیاشی، ہوسناکی اور کھل کھیلنے کا جو عنصر ہے اس کے اظہار میں داغؔ نے ایک کیفیت پیدا کر دی ہے۔ ان کی غزلیں مترنم بحروں میں ہیں۔ ان کی زبان آسان، شستہ اور سادہ ہے۔ بیان کی شوخی، بے تکلفی، طنز، جذبہ کی فراوانی اور تجربہ و مشاہدے کی کثرت سے ان کی غزلیں بھرپور ہیں۔ داغ کی تمام شاعری وصل کی شاعری ہے۔ نشاطیہ لب و لہجہ، غیرمنافقانہ رویہ اور دہلی کی زبان پر قدرت داغؔ کی مقبولیت کا راز ہے۔