مولانا محمد حسین آزاد (تنقید و تحقیق کا دبستانِ لاہور)
آزادؔ اُردو نثرکے عناصرِ خمسہ میں شمار کیے جاتے ہیں، ان عناصرِ خمسہ میں آزاد کے علاوہ سرسیّد احمد خاں، شبلی نعمانی، ڈپٹی نذیر احمد اور الطاف حسین حالی شامل ہیں۔ 1857ء کے دگرگوں حالات میں آزاد نے دہلی کو خیرباد کہا اور فکرِ معاش میں لکھنؤ، مالوہ، بمبئی، جیند (ریاست)، جگراؤں (ضلع لدھیانہ)، مدارس اور حیدر آباد دکن جیسے دُور دراز علاقوں کی خاک چھانتے پھرے۔ 1860ء کی دہائی کے اوائل میں لاہور پہنچے اور یہاں محکمۂ تعلیم میں چھوٹی موٹی ملازمتیں کرتے رہے۔ اسی دوران میں گورنمنٹ کالج کے پہلے پرنسپل ڈاکٹر لائٹنر سے اُن کی ملاقات ہوئی۔ علومِ شرقیہ کے ماہر نے اُن کی خداداد صلاحیتوں کو بھانپ لیا۔ فی الفور محکمۂ تعلیم سے اُنھیں اپنے کالج میں لے گئے۔ انجمنِ پنجاب میں رُکنیت دلوائی اور اربابِ حل و عقد کا اعتماد دلوا کر اُنھیں وسطِ ایشیا کے سفر پر روانہ کر دیا۔ اس کے بعد آزاد عمر بھر یہیں لاہور میں رہے۔ ریٹائرمنٹ کے بعد طویل دورِ جنوں بھی یہیں گزارا اور بالآخر کربلا گامے شاہ لاہور میں آسودۂ خاک ہوئے۔
آزاد کے سوانحِ حیات، تصانیف اور اُن کی مجموعی علمی و ادبی خدمات سے متعلق مقالات و کتب اتنی بڑی تعداد میں شائع ہو چکی ہیں کہ اُن کی الگ سے ایک مبسوط ببلوگرافی تیار کی جا سکتی ہے۔ اگر ان تمام مطالعات پر ایک سرسری نظر ڈالی جائے تو اُن میں لاہور سے مستقل یا عارضی تعلق رکھنے والے آزاد شناسوں، ناقدوں اور محققوں کی تحریریں ایک بالکل الگ امتیازی شناخت کی حامل نظر آتی ہیں۔ اِن قلمکاروں نے آزادؔ کے حوالے سے عام ڈگر سے ہٹ کر جو دبستان کھولا، اُس کی اپنی ہی پہچان ہے۔ اس پس منظر میں زیرِ نظر کتاب کے عنوان میں ’’دبستانِ لاہور‘‘ کی ترکیب استعمال کی گئی ہے۔ اس کی کئی وجوہ ہیں جیسے (۱) اگرچہ آزادؔ پر پورے برصغیر میں تصانیفِ آزاد شائع ہوئی ہیں، لیکن لاہور میں ان کی اشاعت کی مثال ناپید ہے۔ (۲) لاہور ہی میں مجلسِ یادگارِ لاہور قائم کی گئی۔ (۳) دبستانِ لاہور کے آزاد شناسوں نے نت نئے مستند مصادر کی دریافتیں کی ہیں، جن کے منظرِ عام پر آنے سے آزاد کے بہت سے تاریک گوشے منور ہوئے۔ (۴) لاہور ہی میں آزاد پر پہلی ڈاکٹریٹ کی ڈگری تفویض کی گئی۔ (۵) پہلا آزاد نمبر نکالنے والے علمی و ادبی جریدے کا تعلق بھی لاہور ہی سے تھا۔ (۶) آزاد پر بین الاقوامی کانفرنسیں سب سے زیادہ لاہور میں منعقد ہوئی ہیں۔ (۷) آزاد کے سفرِ وسطِ ایشیا کی رپورٹ بھی لاہور سے شائع کی گئی تھی۔ (۸) آزاد پر مجلس ترقی ادب لاہور نے سب سے زیادہ کام کیا ہے۔ ان وجوہات کی بنا پر مضامین کے اس مجموعے کو آزاد پر تحقیق و تنقید کا دبستان قرار دیا گیا ہے۔ اس کے دو حصے ہیں، پہلے حصے میں وہ مضامین ہیں جن کے مصنّفین کی آزاد کی صد سالہ برسی کے وقت وفات پا چکے تھے، اور دوسرے حصے میں وہ مضامین شامل ہیں جن کے مصنّفین اس وقت حیات تھے۔