ڈاکٹر وزیر آغا کا قلم کسی ایک صنف یا شعبۂ ادب تک محدود نہیں۔ تحقیقی اور تخلیقی سطح پر ان کی نادر تحریریں ادبا اور محققین کے لیے رہنما اُصول متعین کرنے میں نہایت فائدہ مند ہیں مگر ان کی نمایاں ترین حیثیت ایک قابلِ قدر نقاد کی تھی۔ انھیں عالمی سطح پر تنقید کے عہد بہ عہد اور نو بہ نو اوضاع کا گہرا شعور حاصل تھا۔ مطالعہ اور تفکر ان کے عمر بھر کے مشاغل رہے۔ جس میں چالیس مختصر و طویل مقالے تھے۔ اس ایڈیشن میں چھے مزید مقالات شامل کیے گئے ہیں۔ اس اعتبار سے پیشِ نظر ایڈیشن جامع تر ہے۔ آغا صاحب نے تنقید کے مختلف رویوں کا ذکر ان الفاظ میں کیا ہے: ’’میرا موقف یہ ہے کہ اکیسویں صدی امتزاج اور انضمام کی صدی ہوگی۔ جس میں تنقید کے امتزاجی انداز کو فروغ ملے گا اور مصنف، تصنیف اور قاری کی اہلیت ایک کل کے طور پر نظروں کے سامنے آ جائے گی‘‘۔ معنی و تناظر میں شامل مضامین اُنھوں نے پانچ چھے سال کے عرصے میں وقتاً فوقتاً تحریر کیے۔ ان مضامین میں اسی امتزاجی زاویے کے عناصر موجود ہیں۔
پیشِ نظر کتاب کی پہلی فصل بعنوان، نظری تنقید، میں اُنھوں نے معنی اور تناظر، اکیسویں صدی، ادراکِ حسن کا مسئلہ، ثقافت، ادب، جمہوریت، علامت کیا ہے، تنقیدی قلب ماہیت، اور تنقیدی تھیوری کے عنوان سے مضامین شامل ہیں جن میں ساختیاتی تنقید اور ساخت شکنی پر بات کی گئی ہے۔ دوسری فصل میں شاعری، تیسری فصل میں فکشن، عصمت چغتائی اور منٹو کے افسانوں کا مخصوص حوالوں سے علامتی افسانے اور جوگندر پال کے افسانہ مہاجر کا تنقیدی جائزہ لیا ہے۔ چوتھی فصل میں معاصر تنقید کے ذیلی عنوانات میں، شاعری کا دیار، محمل یا منزل اور میٹا تنقید کی ایک مثال کے عنوانات سے مختصر مضامین شامل ہیں۔ کتاب کے آخر میں متفرق کے تحت میم اور جین اور حلقۂ اربابِ ذوق راولپنڈی سے صدارتی خطبہ بھی شامل کر دیا گیا ہے۔ معنی اور تناظر کا مطالعہ تنقید کے طلبہ اور قارئینِ ادب کے لیے اُردو میں تنقید کے نئے نئے پہلوئوں سے تعارف کا ذریعہ ثابت ہو سکتا ہے۔