شمس العلما مولوی ذکاء اللہ دہلی کالج کی نامور شخصیتوں میں سے تھے۔ اُردو ادب کے محسنین کے تذکرے میں جہاں سرسیّد اور ان کے رفقا کا ذکر ہوگا، وہاں مولوی ذکاء اللہ کا نام ضرور زبان پر آئے گا۔ اُنھوں نے دہلی کالج سے تحصیلِ علم کے بعد اس نامور ادارے میں ملازمت کا آغاز کیا۔ چھتیس سال تک محکمۂ تعلیم میں مختلف عہدوں پر فائز رہ کر 1885ء میں سبکدوش ہوئے اور 1910ء میں وفات پائی۔ تصنیفی کام زمانۂ طالب علمی ہی میں شروع ہو گیا تھا، لیکن ملازمت سے سبکدوش ہونے کے بعد یہ سلسلہ عروج پر پہنچ گیا۔ 1849ء سے 1885ء تک ممالک متحدہ آگرہ و اودھ اور سابق صوبہ پنجاب میں ان کی کتابیں شاملِ نصاب تھیں۔ ان کی تصنیف تاریخِ ہند کی جلد اوّل سرسیّد نے مدرسۃ العلوم علی گڑھ کے نصاب کے لیے منظور کی تھی۔ مولوی ذکاء اللہ کے تصنیفی کام میں جس قدر موضوعات کا دائرہ وسیع ہے، اسی قدر ان کے قلم میں اظہار و ابلاغ کی غیرمعمولی قدرت اور صلاحیت ہے۔ ان کی نثر میں دبستانِ سرسیّد کی خصوصیات بھی موجود ہیں اور اس کے ساتھ ساتھ ان کا ذاتی اسلوب جو بے حد خوبصورت اور دلچسپ ہے، ان کی نثر کو اپنے ہم عصروں میں منفرد حیثیت دیکھا ہے۔
’’مکارم الاخلاق‘‘ مولوی ذکاء اللہ کی ایک اہم تصنیف ہے۔ اس کا موضوع اخلاقیات ہے۔ مولوی صاحب نے اپنے دیباچے میں اس موضوع کو انسانی ذہن کا بہترین جوہر قرار دیا ہے۔ اس کتاب کے مآخذ میں جہاں ایک طرف قرآن و سنت اور مشہور مسلم مصنّفین کے اقوال شامل ہیں، وہاں دوسری طرف مولوی ذکاء اللہ کی اپنی روشن دماغی اور خوش فکری بھی دکھائی دیتی ہے۔ اس کتاب کو مسلمانوں کے فنِ حیات کے منشور کا درجہ حاصل ہے۔ موضوع کی اہمیت کے ساتھ ساتھ سرسیّد سکول کے ایک اہم مصنف کے نثر پارے کی حیثیت سے بھی مکارم الاخلاق اپنا ایک خاص مقام رکھتی ہے۔