عموماً حالی کے ادبی کمالات کا اعتراف اُس شعری انقلاب کے ذکر سے کیا جاتا ہے جو مولانا نے اپنے شریکِ غالب محمد حسین آزاد کی رفاقت میں برپا کیا۔ لیکن بطور نثر نگار بھی اُن کا بلند مقام ادبِ اُردو میں ایک نشانِ راہ کی حیثیت رکھتا ہے۔ ادبی تنقید میں اُن کا اجتہادی کام ہمیشہ زندہ رہے گا علاوہ ازیں سوانح نگار کی حیثیت سے اُن کی اوّلیت مسلم ہے۔ خاص طور پر حالی کی تنقیدی تصانیف ’’مقدمہ شعر و شاعری‘‘، ’’حیات سعدی‘‘، ’’یادگار غالب‘‘ اور ’’حیات جاوید‘‘ اہمیت کی حامل ہیں جو حالی کی نثر نگاری کی عمدہ مثال ہیں۔ اسی قبیل کا ایک مختصر رسالہ ’’حالاتِ حکیم ناصر خسرو‘‘ ہے جو حالی کے سوانحی شاہکاروں کی تمہید کی حیثیت رکھتا ہے۔
حالی کی تحریر کردہ یہ سوانح عمری ’’سفرنامۂ حکیم ناصر خسرو‘‘ کے ساتھ اُس کے مقدمے کے طور پر 1882ء میں شائع ہوئی۔ ناصر خسرو کا سفرنامہ فارسی زبان میں ہے، اس لیے حالی نے صاحبِ سفرنامہ کی سیرت و حالات فارسی ہی میں قلمبند کیے ہیں۔ سفرنامے کے متن کی تصحیح کے علاوہ حالی نے ترتیبِ سوانح میں بے انتہا کاوش کی۔ فارسی میں بھی حالی کا اسلوبِ نثر اُتنا ہی صاف و شفاف ہے جتنا اُردو میں۔ اُن کے متین و وقیع بیان میں فالتو لفظ کی گنجائش نہیں نکلتی، نہ انشاپردازی کا وہ انداز اُنھیں مرغوب ہے جو آرائشی ترکیبوں کے ساتھ غیرضروری استعاروں کی بیساکھیوں کے سہارے ڈگمگاتا ہوا چلتا ہے۔ حالاتِ ناصر خسرو کے بیان میں خواجہ حالی نے ضمنی طور پر اپنی ترجیح و پسند کا اظہار اُسی طرح کر دیا ہے، جس طرح ہر ادبی تحریر کا مصنف لامحالہ کرتا ہے۔ حالی نے سوانح نگاری کے معاملے میں ناصر خسرو کی تاریخ پیدائش، مولد و منشا کے تعین، تحصیلِ علوم، اس کے شغلِ تدریس، آلِ سلجوق کی ملازمت اور پھر ہفت سالہ سیر و سیاحت کے سلسلے میں دادِ تحقیق دیتے ہیں۔ الغرض قارئین کو اس کتاب میں نہ صرف ناصر خسرو کے حالات دریافت ہوں گے بلکہ خود مولانا حالی کے جواہرِ حکمت ہر صفحے پر بکھرے ملیں گے۔