سرسید احمد خاں، متنوع صفات کے حامل ایک علمی و ادبی شخصیت تھے۔ وہ سیاست داں بھی تھے، ماہر تعلیم بھی، بہترین نثر نگار بھی اور متحرک رہنما بھی۔ انھوں نے ہر میدان میں اپنے دیرپا اثرات چھوڑے ہیں۔ سرسید احمد خان کی تصانیف تاریخی اہمیت کی حامل بھی ہیں۔ زیر نظر کتاب سرسیّد کے سفرنامے ’’مسافرانِ لندن‘‘ پر مشتمل ہے، جو ان کے قیامِ لندن کے واقعات اور حالات کی تصویر پیش کرتا ہے۔
سفرِ انگلستان کا پہلا بنیادی مقصد سر ولیم میور (لیفٹیننٹ گورنر صوبہ جات شمال مشرقی یو پی) کی کتاب ’’لائف آف محمد‘‘ (لائف آف محمد چار جلدوں میں ۱۸۵۵ء-۱۸۶۱ء میں شائع ہوئی) کا دندان شکن جواب لکھنا تھا۔ اس کتاب میں اسلام اور پیغمبر اسلام کے بارے میں متعدد باتیں ایسی تھیں جو ناقابلِ قبول تھیں۔ ولیم میور نے اس کتاب کو لکھتے وقت جس عربی مصادر و مراجع سے استفادہ کیا تھا وہ برطانیہ کے کتب خانے میں موجود تھے، اس لیے اس کا مدلل جواب لکھنے کے لیے انگلستان کا سفر کرنا ضروری تھا۔ اس عظیم مقصد کے ساتھ احمد خاں یکم اپریل 1869ء کو بنارس سے لندن کے سفر پر روانہ ہوئے۔ اس سفر میں سیّد احمد خان تنہا نہ تھے بلکہ ان کے ساتھ ان کے دونوں بیٹے ’’سیّد حامد‘‘ اور ’’سیّد محمود‘‘ تھے ۔ اس کے علاوہ ان کے ذاتی مدد گار عظیم اللہ عرف چھجو اور مرزا خدا داد بیگ تھے۔ لندن کے سفر کے لیے پیسے کی کمی کی وجہ سے کتب خانہ فروخت کر دیا اور گھر کو رہن پر رکھ دیا تھا۔
اس سفر کا دوسرا اہم مقصد برصغیر کے تہذیبی مزاج کی تجدید اور اس کو جنت نظیر بنانے کی خواہش تھی۔ قیام لندن کے دوران انھوں نے وہاں کتب خانے، برٹش میوزیم، مدارس، ونچسٹر کالج، جنگی جہازوں کی تیاری، صنعت و حرفت وغیرہ ہر چیز، ہر مقام دیکھا اور ہر وقت انھیں اپنا ملک اور اہل وطن کی یاد ستاتی رہی۔ وہ ایسی ہی ترقی اپنے ملک میں دیکھنے کے خواہاں تھے۔ وطن واپس آ کر اپنی اسی خواہش کی تکمیل میں وہ تاحیات مصروف رہے۔ اس سفرنامہ میں لندن کے مختلف مقامات کی معلومات تفصیل کے ساتھ موجود ہیں۔