اُردو کا کلاسیکی ڈراما، اُردو ادب کی صد سالہ روایت کا حصہ ہے۔ شاہی سٹیج سے عوامی سٹیج اور عوامی سٹیج سے تھیٹریکل کمپنیوں تک اُردو ڈراما جن جن نئی اشکال اور مراحل سے گزرا ہے، وہ تاریخِ ادب کی گم شدہ لیکن اہم ترین کڑیاں ہیں اور ادب کے طالب علم اس سے خاصی حد تک ناآشنا ہیں۔ اس کا واحد سبب یہ ہے کہ اُردو سٹیج کے ڈرامے کسی منظم کاوش کے تحت ایک جدا ادبی صنف کے طور پر کبھی شائع نہیں ہوئے۔ لوگ جس طرح تقریباً کھیل دیکھتے تھے، تقریباً اُسی طرح چھپے ہوئے ڈراموں کو پڑھتے تھے، جو اکثر اوقات مصنّفین سے مسودہ حاصل کرنے کی بجائے اداکاروں کی زبانی سن کر چھاپے جاتے تھے۔ یوں کلاسیکی ڈرامے کو کم از کم اشاعت کی حد تک تو کبھی کلاسیکی ادب کا درجہ نہ مل سکا۔ مجلس ترقی ادب لاہور نے اس خدمت کو سرانجام دیا۔ کلاسیکی ڈراموں کو ایک سلسلے میں مرتب کیا گیا ہے، جو دو ادوار پر مشتمل ہے: (۱) متقدمین کا دور، (۲) متاخرین کا دور۔ یہ سلسلہ تاریخ کے اُس عہد سے شروع ہوتا ہے جب انگریزی تہذیب اور انگریزی ادب ملکی ادب اور تہذیب کو متاثر کر رہا تھا اور دوسری اصنافِ ادب کی طرح ناٹک بھی ڈرامے کی ہیئت اختیار کر رہے تھے۔ متقدمین کے کم و بیش تیس ڈرامے شائع کر چکنے کے بعد اس دور کے مزید ڈراموں کے متون کے حصول میں چند در چند مشکلات درپیش تھیں، اس لیے طے کیا گیا کہ اگر متاخرین کے ڈراموں کے مستند متون دستیاب ہوں تو پہلے اُنھیں شائع کر دیا جائے۔ ڈراموں کا زیرِنظر مجموعہ اسی سلسلے کی کڑی ہے۔
اس جلد میں مختلف نامعلوم مصنفوں کے لکھے ہوئے تین پرانے ڈرامے یکجا کیے جا رہے ہیں۔ پہلے کا نام ہے ’’فتنۂ غانم‘‘، دوسرے کا نام ہے ’’ظلم وحشی‘‘ اور تیسرے کا نام ہے ’’دو رنگی دنیا‘‘۔ ان تینوں ڈراموں کے متون کے متعلق صراحت کے ساتھ یہ بات معلوم نہیں کہ انھیں کن حضرات نے لکھا اور پہلے پہل یہ کس تھیٹریکل کمپنی کے اسٹیج پر کب آئے۔ پہلے ڈرامے کے متعلق اتنی بات اور معلوم ہے کہ یہ ایک سے زیادہ بار لکھا گیا۔ اس کا ایک متن حافظ عبداللہ نے مرتب کیا تھا۔ دوسرا ڈراما کسی وکٹورین ڈرامے کا چربہ ہے۔ ایک زمانے میں یہ کھیل بہت مقبول تھا۔ تیسرا ڈراما ’’دو رنگی دُنیا‘‘ ہے۔ مرتب نے تا بہ حدِ امکان ان ڈراموں کے متن کی تصحیح کر دی ہے۔ بعض مقامات پر حسبِ ضرورت حواشی کا اضافہ بھی کیا گیا ہے۔ تینوں ڈراموں کے متن کے فنی محاسن اور معائب پر تبصرہ بھی کیا گیا ہے۔