فورٹ ولیم کالج سے چھپی اس کتاب ’’نقلیات‘‘ کو گل کرسٹ کی تالیف بتایا جاتا ہے۔ لیکن تحقیق سے پتہ چلتا ہے کہ یہ میر بہادر علی حسینی کی مرتب کردہ ہے جسے غلطی سے گل کرسٹ کی جانب منسوب کر دیا گیا ہے۔ اس کتاب میں 108 نقلیں یا Tales شامل کی گئی ہیں۔ یہ کتاب فورٹ ولیم کالج کے مقاصد کے تحت لکھی گئی تھی جس کا مقصد انگریزوں کو مقامی زبان اُردو زبان و ادب سکھانے کے ساتھ ساتھ مقامی کلچر اور رسوم و رواج سے آشنا کرنا بھی تھا۔ اس کتاب میں شامل مختصر کہانیاں وہ ہیں جو اُس وقت عوام الناس میں مقبول تھیں اور سینہ بہ سینہ منتقل ہوتی رہتی تھیں۔ ابتدائی طور پر اس کتاب کو تین خطوں یعنی رومن، فارسی اور دیوناگری میں شائع کیا گیا۔ اُردو متن نستعلیق ٹائپ میں چھپا ہوا تھا اور کتاب کے ہر صفحے پر 13 سطریں اور ہر سطر میں 10 سے لے کر 13 الفاظ تھے۔ ٹائپ کے حروف اور جوڑ پوری طرح واضح تھے اور کسی ایک حرف کو دوسرے کے ساتھ جوڑنے میں کسی طرح کی دقت کا سامنا نہیں تھا۔ یہاں تک کہ بعض اوقات دو دو لفظوں کو بغیر کسی ضرورت کے جوڑ دیا گیا تھا جیسے آپسمیں، لوگونسے، نظرونکا وغیرہ۔ جس طرح حروف اور الفاظ کو الگ الگ یا ملا کر لکھنے کے سلسلے میں کسی طرح کا اہتمام نہیں، اسی طرح اوقاف سے کام لینے کی کوشش کے باوجود ان کے استعمال میں کسی قاعدے یا اُصول کی پابندی نظر نہیں آتی۔
البتہ اہتمام اور التزام اگر ہے تو اعراب کے استعمال کے معاملے میں کہ اس التزام کے بغیر لفظوں کے صحیح تلفظ کا پتا نہیں چلتا اور جن انگریز پڑھنے والوں کے لیے یہ نقلیں مرتب کی گئی ہیں، ان کے نقطۂ نظر سے اشد ضروری تھا کہ اعراب کے ذریعے لفظوں کے تلفظ کی وضاحت کی جائے۔ لیکن فارسی اور عربی کے بہت سے الفاظ استعمال ہوئے ہیں جن کے تلفظ کے معاملے میں بڑی بے احتیاطی برتی گئی ہے۔ اپنے انگریزی کے اختتامیہ میں گل کرسٹ نے اس بات پر زور دیا ہے کہ ’’نقلیات‘‘ کے متن میں لفظوں کے مختلف تلفظ استعمال کیے گئے ہیں جیسے روپیّا، روپّیا، روپئے، روپوں کا توڑا، روپے وغیرہ۔ ’’نقلیات‘‘ کے متن میں بعض لفظ اس طرح لکھے گئے ہیں کہ ان میں بظاہر کسی اُصول کی پابندی نظر نہیں آتی۔ علاوہ ازیں روزمرہ کے استعمال سے بے تکلفی پیدا کی گئی ہے اور لفظوں کی ترتیب بدل کر عام بول چال کی زبان سے قریب لایا گیا ہے۔