اکبر الٰہ آبادی کے یہ مضامین اور ادبی کتابوں پر تاثرات مختلف ذرائع سے اکٹھے کر کے پہلی بار ایک مجموعے کی شکل میں شائع کیے جا رہے ہیں۔ ان میں سے بیش تر مضامین اَوَدھ پنچ لکھنو کے مختلف شماروں میں طبع ہوئے تھے۔ مضامین کے آخر میں ایک روداد شامل ہے جو اَوَدھ اخبار میں شائع ہوئی تھی۔ اس کے بعد ادبی کتابوں پر چند تاثراتی تحریریں ہیں۔ لیکن مجموعے کا غالب حصہ اَوَدھ پنچ میں شائع شدہ مضامین پر مشتمل ہے۔ اکبر الٰہ آبادی اودھ پنچ کے اجرا کے تھوڑا عرصہ بعد ہی اس میں نثر و نظم لکھنے لگے تھے۔ ان کا پہلا مختصر نثری مراسلہ بعنوان ’’امتحان اُمیدواراں مقام الٰہ آباد‘‘ 13؍ جنوری 1877ء کے اَوَدھ پنچ میں شائع ہوا تھا اور پھر ان کی نظم و نثر تھوڑے تھوڑے وقفوں کے بعد شائع ہوتی چلی گئی۔
یہ مضامین اس لحاظ سے بہت اہم ہیں کہ انیسویں صدی کے رُبع آخر اور بیسویں صدی کے ابتدائی چند برسوں کے سیاسی، سماجی اور معاشی حالات کی تصویر کشی کرتے ہیں۔ ہندوستان کے مسلمان اس زمانے میں مسلمان ممالک کے روز افزوں زوال کے بارے میں کیا سوچتے تھے۔ اور کیا محسوس کرتے تھے۔ ان واقعات کی تصویر کشی اور لوگوں کے احساسات ان تحریروں میں پوری طرح موجود ہیں۔ علاوہ ازیں انگریزوں کے بارے میں عام طور پر کیا خیالات تھے اور ان کی سیاسی پالیسیاں کیا اثرات مرتب کر رہی تھیں۔ ان سب کا عکس ان تحریروں میں دیکھا جا سکتا ہے۔ نئے فلسفیانہ اور سائنسی نظریات کے بارے میں ہندی مسلمانوں کے ردّعمل کا بالواسطہ اظہار بھی ان مضامین میں پایا جاتا ہے۔ ان میں طنز و مزاح پیدا کرنے کے لیے متعدد انداز اور اسالیب اپنائے گئے ہیں۔ سادہ بیانیہ انداز، مکالمہ، مکتوب، اخباری خبر، غرض بہت سے حربے استعمال کر کے دلچسپی پیدا کی گئی ہے۔