مثنوی ’’پدماوت‘‘ کلاسیکی ادب کا وہ شاہکار ہے جسے بقائے دوام اور شہرتِ عام نصیب ہوئی۔ اسے ملک محمد جائسی نے شیر شاہ کے عہد میں 1540ء میں اودھی زبان میں تصنیف کیا تھا۔ ’’پدماوت‘‘ کی کہانی کے دو حصے ہیں: پہلا تخیلی اور دوسرا نیم تاریخی ہے۔ پہلے حصے میں سنہل دیپ کے راجا کی حسین بیٹی پدماوتی جوان ہونے کے بعد دل گرفتہ رہنے لگی۔ یہ ایک توتے کو بہت عزیز رکھتی تھی جو اس کو عشق و محبت کے حسین خواب دکھاتا تھا۔ راجا نے توتے کو ہلاک کرنا چاہا مگر وہ بچ نکلا اور ایک برہمن کے ذریعے چتوڑ کے راجا رتن سین کے پاس پہنچ گیا۔ راجا نے توتے سے پدماوتی کے حسن و جمال کا حال سنا تو اس پر عاشق ہو گی اور راج پاٹ چھوڑ کر شہزادی کے حصول کے لیے جوگی کے لباس میں سنہل دیپ پہنچ گیا۔ کافی جدوجہد کے بعد دونوں کی شادی ہو گئی، راجا پدماوتی کو چتوڑ لے آیا اور دونوں ہنسی خوشی رہنے لگے۔
اس کے بعد کا حصہ نیم تاریخی رنگ کا ہے۔ سلطان علاء الدین خلجی چتوڑ کے ایک برہمن کی زبانی پدماوتی کے حسن و جمال کا حال سن کر اسے حاصل کرنے کے لیے چتوڑ پر حملہ کر دیتا ہے۔ مگر آٹھ برس تک بھی قلعہ فتح نہیں ہوتا۔ بالآخر سلطان راجا سے صلح کر لیتا ہے اور رتن سین کئی روز سلطان کی دعوت کرتا ہے۔ اسی دوران سلطان کسی بہانے سے پدماوتی کی جھلک دیکھ کر اسے حاصل کرنے کے لیے بیتاب ہو جاتا ہے اور شہر سے واپس جاتے ہوئے دھوکے سے راجا کو قید کر لیتا ہے اور اسے دہلی لے جاتا ہے۔ تاہم راجپوت سردار اسے رہا کرا کے واپس چتوڑ لاتے ہیں۔ مگر یہاں ایک پڑوسی راجا دیوپال سے رتن سین کی لڑائی ہوتی ہے اور دونوں مارے جاتے ہیں۔ رانی پدماوتی ستی ہو جاتی ہے اور علاء الدین خلجی ہاتھ ملتا رہ جاتا ہے۔
ملک محمد جائسی کی ’’پدماوت‘‘ نے اپنے زمانے میں اس قدر مقبولیت حاصل کی کہ لوگ اس میں بیان کردہ تمام باتوں کو تاریخی واقعات سمجھنے لگے۔ چنانچہ بعد میں آنے والے مورخوں نے بھی اس کی اصلیت تسلیم کر لی اور اس واقعے کو سلطان علاء الدین خلجی سے منسوب کر دیا، حالانکہ اس کے حقیقی ہونے میں کئی شبہات ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ جائسی کی یہ مثنوی تصنیف ہوتے ہی بہت مقبول و معروف ہوئی اور ہر خاص و عام کی زبان پر اس کی کہانی چڑھ گئی۔ شجاعت و مردانگی کے واقعات کی فراوانی کی وجہ سے راجپوتوں نے اسے اپنی قومی تاریخ کا ایک سچا واقعہ سمجھ لیا۔ اس کا اندازِ بیان انتہائی سادہ اور دل نشین ہے۔ اشعار رواں دواں اور مترنم ہیں۔ اگرچہ دو آدمیوں نے یہ قصہ نظم کیا ہے لیکن پہلے اور دوسرے حصے کا پیوند اس خوبی سے لگایا گیا ہے کہ معلوم نہیں ہوتا۔ پہلے حصے کا زورِ قلم اور لطفِ بیان دوسرے حصے میں بھی قائم رہتا ہے۔