عالمی ادب زیادہ تر انگریزی ترجمہ سے اُردو میں ترجمہ ہوتا ہے۔ اس لیے انگریزی سے اُردو میں ترجمہ شدہ مواد میں اکثر مصنف کے مافی الضمیر کو من و عن ترجمہ کرنے کا امکان کم ہوتا ہے۔ پیشِ نظر کتاب ’’پیرس کا کرب‘‘ بودلیئر کی نثری نظموں کا فرانسیسی زبان سے براہِ راست ترجمہ ہے جو ڈاکٹر لئیق بابری نے مجلس ترقی ادب کے لیے کیا تھا۔ اس کتاب کا پہلا ایڈیشن کئی سال پہلے خطِ نسخ (اُردو ٹائپ) میں شائع ہوا تھا۔ یہ اس کتاب کا دوسرا ایڈیشن خطِ نستعلیق میں شائع کیا گیا ہے۔ مترجم ڈاکٹر لئیق بابری فرانسیسی زبان میں بدرجۂ کمال درک رکھتے تھے۔ جس کی رُو سے کہا جا سکتا ہے کہ یہ ترجمہ اصل متن سے قریب تر ہے۔ اس کتاب کا انتساب اُنھوں نے پیرس یونیورسٹی (سوربون) میں اپنے فرانسیسی زبان کے استاد پروفیسر ایتیامبل کے نام سے کیا ہے۔ جنھوں نے ڈاکٹر بابری کو فرانسیسی ادب اور ترجمے کے فن سے آشنا کیا تھا۔ کتاب کا مقدمہ دو حصوں پر مشتمل ہے۔ پہلے حصے میں (جو سولہ صفحات کو محیط ہے) شارل بودلیئر کی زندگی اور شخصیت پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ مترجم نے ان حالات اور واقعات کا صراحت کے ساتھ ذکر کیا ہے جو بودلیئر کی نفسیات کی تشکیل اور نظریۂ فن پر اثرانداز ہوئے۔ اُنھوں نے بودلیئر کے بارے میں ان کے دوستوں اور اساتذہ کے تاثرات بھی بیان کیے ہیں۔ الغرض مقدمے کے اس حصے کا مطالعہ بودلیئر کے قاری کے لیے بڑا مفید ہے۔
مقدمے کے دوسرے حصے میں فرانسیسی شاعری کی روایت کی روشنی میں بودلیئر کی نثری نظم کا جائزہ لیا گیا ہے۔ جس کی رو سے بودلیئر فرانسیسی زبان کا پہلا شاعر ہے جس نے شہر اور شہر کے باسیوں کے دُکھ درد کو اپنی شاعری کا موضوع بنایا ہے۔ اس کتاب کے عنوان سے بھی ظاہر ہے کہ اس میں شامل نظمیں پیرس اور پیرس کے رہنے والوں سے متعلق ہیں۔ اُردو میں نثری نظم بھی دیگر کئی شعری اصناف کی طرح یورپی ادبیات سے متعارف ہوئیں۔ لیکن اُردو میں نثری نظم نثری عبارت سے الگ انداز میں آزاد نظم کی طرح لکھی جاتی ہے۔ جبکہ عالمی ادب میں نثری نظم بھی نثر کی طرح عبارت کی صورت میں لکھی جاتی ہے۔ اس ترجمے میں بھی یہی عبارتی اسلوب اختیار کیا گیا ہے۔ بودلیئر کی ان نظموں کے عنوان بہت دلچسپ ہیں۔ ہر نظم کا عنوان اس کے نفسِ مضمون کا تعارفیہ ہے۔