’’قدیم یونانی فلسفہ‘‘ امام غزالی کی معروف کتاب ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ کا اُردو ترجمہ ہے۔ غزالیؒ، اسلام کی فکری تاریخ میں وہ پہلے اور آخری فلسفی ہیں جنھوں نے علم و دانش کے رائج الوقت پیمانوں کا ازسرنو جائزہ لیا، جنھوں نے یونانی صنم خانوں پر بھرپور وار کیا اور علم و آگہی کے نئے سرچشمے کی نشان دہی کی۔ امام غزالی کا ’’مقاصد الفلاسفہ‘‘ کی تصنیف کا مقصد فلسفیانہ حلقوں میں اس کے ذریعے اپنی دھاک بٹھانا تھا تاکہ اس کے بعد وہ قدیم یونانی فلسفہ کی داماندگی ظاہر کر سکیں اور ابنِ سینا اور فارابی کی پھیلائی ہوئی غلط فہمیوں کا ازالہ کر سکیں۔ اپنی اس کتاب میں غزالی نے منطق، الٰہیات اور طبیعیات ایسے خشک مضامین کو ایسے واضح، شگفتہ اور قابلِ فہم انداز میں بیان کیا ہے کہ ان کی فلسفیانہ صلاحیتوں میں کوئی شک نہیں رہتا۔
مجلس ترقی ادب لاہور کے اس کتاب کے ترجمہ کرنے کی کئی وجوہات بنیں جیسے (1) غزالی کی فلسفیانہ تصنیفات سے خصوصی دلچسپی، (2) یونانی فلسفہ یورپ اور دیگر دُنیا میں عربوں کے ذریعے پھیلا، اس ترجمے سے عربوں کے اخذ و ترجمہ میں درجۂ دیانت داری، سلیقہ اور خوش اسلوبی کا ثبوت ملتا ہے۔ (3) علومِ عقلیہ کے اُردو میں ڈھالنے سے علما اپنی توانائیوں کو بچا کر ذہنی قوتوں کو صرف قرآن و حدیث اور جدید ترین علوم کی اعلیٰ تعلیم کی طلب و جستجو میں کھپا سکیں۔ ان مقاصد و وجوہات کے پیش نظر امام غزالی کی کتاب کے اس ترجمہ میں کوشش کی گئی ہے کہ علم و ادب کے تقاضے پیشِ نظر رہیں اور کسی طرح بھی مضامین کی خشکی اور اغلاق، قاری کی دلچسپیوں کو مجروح نہ کر سکیں۔ گویا غزالی کے اپنے پیرایۂ بیان کی خوبیوں کو اُردو میں جوں کا توں برقرار رکھنے کی کوشش کی گئی ہے۔