یہ کتاب محض واقعات کی ایک کھتونی نہیں بلکہ ایک واضح نقطۂ نظر کی تفسیر ہے۔ اس میں واقعات اور تحریکوں کا محاکمہ ایک وسیع تر تاریخی پس منظر اور فلسفۂ تاریخ کے اُصولوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ طرزِ فکر اور طرزِ بیان دونوں گہرے غور و فکر کا پتہ دیتے ہیں۔ مصنف نے جس فلسفۂ تاریخ کو اپنے بیان کی بنیاد بنایا ہے، اس کے خدوخال بہت حد تک اقبال کے تصورِ تاریخ سے مماثلت رکھتے ہیں۔ تحریکوں میں شخصیتوں کے مقام اور اُن کے ظہور کے مواقع کا مضمون بہت دلچسپ ہے۔ لیکن یہاں قطعی فیصلوں کی کوئی گنجائش نہیں، اس لیے فاضل مصنف نے صرف چند اشاروں پر ہی اکتفا کیا ہے۔ ’’حقِ حکمرانی‘‘ کے موضوع پر ایک ایسے نقطۂ نظر کی ترجمانی کی ہے جس سے ہماری موجودہ نسل ناآشنا ہے۔ لیکن مصنف نے قائداعظم کی تقریروں سے اپنے موقف کو تقویت دی ہے۔ اختصار اور جامعیت اس کتاب کی دوہری خصوصیت ہے۔
جیلانی کامران اردو کے ممتاز شاعر، ادیب، نقاد، دانشور اور انگریزی زبان و ادب کے استاد تھے۔ ان کی ادبی اور تعلیمی خدمات کے اعتراف میں انہیں تمغہ امتیاز اور صدارتی تمغہ برائے حسن کارکردگی عطا کیے گئے۔ انہوں نے اس کتاب کی ابتدا میں ہی کہہ دیا ہے کہ پاکستان ایک مسلسل سیاسی عمل کا نتیجہ ہے اور اسے ’’تقسیمِ ملک‘‘ قرار دینا محض ایک ذہنی الجھائو ہے۔ اُنھوں نے تقسیمِ بنگال کی اہمیت اور اس سے پیدا ہونے والی تنسیخ کی تحریک پر ایک متوازن بحث کی ہے۔ اس داستان کے دوران بہت سے سوال بھی اُٹھائے گئے ہیں۔ ان میں سے اہم سوال یہ ہے کہ پاکستان کا قیام انسانوں کی سیرت کی تشکیلِ نو کی طرف رہنمائی کرتا تھا، لیکن یہ توقع کیوں نقش برآب ثابت ہوئی۔ بابائے قوم کی شخصیت نے قوم کی زندگی پر جو نہ مٹنے والے نقوش چھوڑے ہیں ان کا دلآویز تجزیہ ہے۔ بہ حیثیتِ مجموعی یہ کتاب ایک دانشور نے دانشوروں کے لیے لکھی ہے اور انہیں دعوتِ فکر دی ہے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں کہ یہ کتاب اُردو زبان کے تاریخی لٹریچر میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔