یہ بات کچھ کم اندوہناک نہیں کہ جرأت جیسے صفِ اوّل کے شاعر کا ’’کلیات‘‘ ابھی تک زیورِ طباعت سے محروم رہا۔ متن کی تیاری میں اس وقت تک کلیاتِ جرأت کے سات مخطوطے اور ایک قلمی دیوان مرتب کے پیشِ نظر رہے ہیں۔ جرأت کی مقبولیت کی وجہ سے ان کے کلام کے قلمی نسخے سینکڑوں کی تعداد میں موجود ہیں۔ ضخامت کے پیشِ نظر متن کے تین حصے کیے گئے ہیں: (۱) پہلی جلد، جو ردیف الف سے ردیف ن تک، (۲) دوسری جلد ردیف واو سے ردیف یے تک غزلیات اور متفرق اشعار پر مشتمل ہے، (۳) تیسری جلد میں غزلیات کے علاوہ دوسری اصنافِ شعری یعنی رباعیات، مثنویات، قصائد، مسدسات و مخمسات، قطعات وغیرہ ہوں گے۔ متن کی تین جلدوں کے علاوہ ایک چوتھی جلد میں مرتب کے مقدمے اور تینوں جلدوں سے متعلق یکجا اختلافِ نسخ و تعلیقات، فرہنگ، اشاریہ، کتابیات، صحت نامۂ اغلاط وغیرہ پر مشتمل ہو۔
قلندر بخش جرأت نے میر تقی میر کے طریقے کو اپنایا ہے مگر اس کی فصاحت و سادگی پر ایک شوخی اور بانکپن کا انداز ایسا بڑھایا جس سے پسندِ عام نے شہرت کا دوام بخشا ہے۔ عوام میں کمال کی دھوم مچ گئی اور خواص حیران رہ گئے۔ اُن کی طرز اُنھیں کا ایجاد ہے اور آج تک اُنھیں کے لیے خاص ہے۔ جرأت کے کلام میں فصاحت و بلاغت اور محاورہ خلائق میں مقبولیت کی وجہ ہے۔ فقط حسن و عشق کے معاملات ہیں اور عاشق و معشوق کے خیالات گویا اُس میں شراب ناب کا سرور پیدا کرتے ہیں۔ اُن کی طبیعت غزل کے لیے عین مناسب واقع ہوئی تھی۔ حریف، ظریف، خوش طبع، عاشق مزاج تھے۔ البتہ استعدادِ علمی اور کاوشِ فکری، شاعری کا جزوِ اعظم ہے۔ اُن کی طبیعت بجائے محنت پسند ہونے کے عشرت پسند تھی۔ تعجب یہ ہے کہ زمانے نےشکر خورے کو شکر دے کر تمام عمر قدردان اور نازبردار امیروں میں بسر کر دی۔ مشاعرے میں غزل پڑھتے تو جلسے کے جلسے لوٹ لوٹ جاتے تھے۔ سیّد انشا باہمہ فضل و کمال، رنگارنگ کے بہروپ بدل کر مشاعرے میں دھوم دھام کرتے تھے؛ وہ شخص فقط اپنی سیدھی سادھی غزل میں وہ بات حاصل کر لیتا تھا۔