مرزا اسد اللہ غالبؔ کی اولین خصوصیت طرفگی ٔ ادا اور جدتِ اسلوبِ بیان ہے لیکن طرفگی سے اپنے خیالات، جذبات یا مواد کو وہی خوش نمائی اور طرح طرح کی موزوں صورت میں پیش کرسکتا ہے۔ جو اپنے مواد کی ماہیت سے تمام تر آگاہی اور واقفیت رکھتا ہو۔ میرؔ کے دور میں شاعری عبارت تھی محض روحانی اور قلبی احساسات و جذبات کو بعینہ ادا کر دینے سے۔ لیکن غالب شدت اور کرب کو محض بیان کر دینے سے روح کو ہلکا کرنا نہیں چاہتے بلکہ ان کا دماغ اس پر قابو پا جاتا ہے اور اپنے جذبات اور احساسات سے بلند ہوکر ان میں ایک لذت حاصل کرنا چاہتے ہیں۔ غالب کی شاعری میں غالبؔ کے مزاج اور ان کے عقائد فکری کو بھی بہت دخل ہے طبیعتاً وہ آزاد مشرب مزاج پسند ہر حال میں خوش رہنے والے رند منش تھے لیکن نگاہ صوفیوں کی رکھتے تھے۔
مرزا اسد اللہ غالب جس طرح اردو شاعری میں غالب ہیں، اس طرح فارسی زبان میں بھی انھوں نے اپنے فن کا لوہا منوایا ہے۔ غالب کی فارسی تصانیف میں پنج آھنگ، مہر نیمروز، دستنبوی، قاطع برہان، درفش کاونی، کلیات نظم، مثنوی، ابرِ گہر بار، سبد چین، سبد باغ دودر شامل ہیں۔ غالب کو ابتدا سے ہی فارسی شعرا بیدل، ظہوری سے دلچسپی تھی۔ ان شعرا کے کلام سے مستفید ہو کر غالب نے بھی فارسی میں شاعری کا آغاز کیا۔ ابتدا میں اسد تخلص کیا پھر غالبؔ۔ زیر نظر غالب کا فارسی کلیات ہے۔ جس میں 1844ء سے 1880ء تک تقریبا تمام فارسی کلام موجود ہے۔ اس کے بعد غالب نے جو کچھ لکھا، ناظر حسین مرزا، شہاب الدین خان، ضیاء الدین خان وغیرہ اپنے اپنے نسخوں میں لکھواتے رہے، ان پر نظرثانی کے بعد پیش نظر کلیات میں شامل کیا گیا ہے۔ یہ کلیات تین مجموعے بالترتیب مثنوی ’’ابر گہربار‘‘، ’’سبد چین‘‘ اور ’’سبد باغ دودر‘‘ شامل ہیں۔ اس کے علاوہ غالب کی فارسی نثر کی کچھ تحریریں بھی شامل ہیں۔ اس طرح ’’کلیات غالب فارسی‘‘ غالب کا مکمل فارسی کلام ہے جس کے مطالعے سے غالب کی زبان فارسی میں مہارت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس کلیات کو سید مرتضی حسین فاضل نے مرتب کیا ہے۔ جس کی یہ تین جلدیں ہیں۔