خدائے سخن، شہنشاہِ تغزل میر کی شاعری درد و غم، رنج و الم، آنسو کی ترجمان ہے۔ میر نے اپنے ذاتی غم کو آفاقی غم بنا کر پیش کیا ہے۔ میر کی یہ شاعری جو درد و غم اور رنج و الم کی ترجمانی اور عکاسی کے باعث سوز و گداز اور نشتریت سے بھرپور اداس ضرور کرتی ہے، لیکن اس میں گھٹن کا احساس نہیں ہوتا۔ یہ ان کے دل اور دلّی کی شاعری ہے جسے بار بار اجاڑا اور بسایا گیا۔ ان کے غم کی آفاقیت نے انھیں شہرتِ دوام بخشی ہے۔ جس کی اہمیت ہر دور میں مسلم ہے۔ زیرِ نظر کلیات میر جدید اصول و ضوابط کے مطابق ترتیب دیا گیا ہے۔ اس کلیات میں میر کا تمام کلام موجود ہے۔ کلیات میر میں میر کے چھ دیوان ترتیب وار ہیں۔ پھر ان کی دیگر اصناف، فردیات وغیرہ کو شامل کیا گیا ہے۔
میر تقی میر کی تمام شاعری پر مشتمل دواوینِ میر کی تمام جلدیں مجلس ترقی ادب لاہور کے زیرِ اہتمام شائع ہوتی رہی ہیں۔ کلیاتِ میر کل چھ جلدوں میں شائع کی گئی ہے۔ اس کتاب میں میر کی غزلیات کے علاوہ فردیات اور آخر میں غزلیات کا ضمیمہ شامل ہے۔ پاورق (حاشیہ) کے مطابق یہ دونوں غزلیں غیرمشمولہ در کلیاتِ میر، بحوالہ آسیؔ قلمی نسخے مورخہ 1249ھ میں موجود ہیں۔ اس لیے مرتب نے انھیں ضمیمہ کے ذیل میں شامل کتاب (جلد چہارم) کیا ہے۔ زیرِ نظر کلیاتِ میر کی جلد چہارم ہے جس میں میر تقی میر کا دیوانِ پنجم و ششم شامل کیا گیا ہے۔ کلب علی خاں فائق کے مرتب کردہ کلیاتِ میر کی اس جلد (جلد چہارم) میں دیوانِ پنجم کی 260، دیوانِ ششم کی 133 غزلیں 75 فردیات اور 3 ضمیمۂ غزلیات درج ہیں۔ تدوین کے اُصول اور ضابطے کے مطابق دیوان میں جہاں کہیں حوالہ جات اور وضاحتوں کی ضرورت محسوس کی گئی انھیں پا ورقی درج کیا گیا ہے۔ دیگر طباعتوں کی طرح یہ بھی خطِ نسخ میں ہے۔