سید محمد میر نام، سوز تخلص، ان کے والد سید ضیاء الدین ایک بزرگ شخص تھے۔ بزرگوں کا اصلی وطن بخارا تھا۔ پہلے میر پھر سوز تخلص کیا۔ میر سوزؔ، میر و سودا اور درد کے عم عصر تھے۔ میر سوزؔ آزاد منش آدمی تھے عمر بھی خاکساری سے بسر کی۔ لکھنؤ میں 1798ء میں وفات پائی۔ میرؔ موصوف خط شفیعا اور نستعلیق لکھنے میں کامل تھے۔ شہ سواری اور فنون سپہ گری میں ماہر تھے۔ بہت سیدھا سادا تھا کلام، تکلف اور تصنع کے بغیر تھا، یہاں تک کہ تشبیہہ اور استعارے، اضافت اور فارسی ترکیبیں بھی شاذ ہی پائے جاتے۔ جو کچھ لطف ہے وہ محض صفائی محاورہ اور شیرینی زبان کا ہے۔ طرحیں بھی آسان ہی اختیار کرتے۔ اکثر ردیف کو نظر انداز کر کے قافیے پر اکتفا کرتے۔ میرؔ نے فارسی ترکیبوں سے بھی کام لیا، اس لیے میرؔ کے یہاں خوش نمائی زیادہ ہے۔ دیوان بہت بڑا نہیں ہے۔ اس میں غزلیات زیادہ ہیں، ایک مثنوی، اور تھوڑی بہت رباعیاں اور چند مخمس۔ قدیم اور متروک الفاظ کا استعمال بھی ان کے یہاں زیادہ تھا۔
کلیاتِ میر سوزؔ ڈاکٹر زاہد منیر عامر نے مرتب کیا ہے۔ میر سوز کا دیوان اُن کی زندگی ہی میں مرتب ہو گیا تھا، جس کی شہادت شاہ کمال نے دی ہے۔ اس اوّلین نسخے کے بعد دیوانِ سوز کی متعدد نقول تیار ہوئیں جن کا تعارف مرتب نے اپنے مقدمے میں کروایا ہے۔ ان دواوین میں لندن میں دو، ملائشیا میں دو، کراچی میں دو، رامپور میں ایک، علی گڑھ میں تین، پٹنہ میں ایک، حیدرآباد دکن میں آٹھ، اودھ میں پانچ اور سندھ میں چھ دیوان شامل ہیں۔ ان کے علاوہ متعدد انتخاب اور ذاتی نسخوں سے بھی کلام کا موازنہ کیا گیا ہے۔ میر سوزؔ کے قلمی اور مطبوعہ نسخوں کے مسلسل موازنے سے مرتب پر واضح ہوا کہ سوز کے کلام میں بہت سے اختلافات واقع ہوئے ہیں، جس کی وجہ کثرتِ نقول ہے۔ چونکہ کلاسیکی متون کو مدوّن کرتے وقت ان کے ساتھ فرہنگ شامل کرنا متون کی افادیت کو بڑھا دیتا ہے۔ اس لیے مرتب نے فرہنگ کو بھی اس کلیات میں شامل کیا ہے۔ مرتب کا مقدمہ تین حصوں یعنی کلمات، سوانح اور شخصیت پر مشتمل ہے۔ اس کے بعد میر سوز کے کلام کے عکسی نقول لوحات کے نام سے دیئے گئے ہیں۔ کلیاتِ میر سوز دو جلدوں میں ہے۔ یہ کلیاتِ میر سوز کی جلد اوّل ہے جس میں ردیف و تا ردیف ی کل 564 غزلیں اور دیگر اصناف، رباعی، مخمس، مثنوی، مستزاد، قطعات وغیرہ شامل کی گئی ہیں۔ غزلوں کے بعد حواشی ہیں، جن میں مشکل الفاظ کی فرہنگ بھی شامل ہے۔ آخر میں کتابیات کی طویل فہرست بھی دی گئی ہے۔