اصغر علی خاں نام، نسیم تخلص، نواب آقا علی خاں تاچار کے بیٹے تھے۔ دلی میں پیدا ہوئے اور وہیں نشوونما پائی، حکیم مومن خاں سے مشقِ سخن کی۔ زمانہ موافق تھا، اپنے مکان پر مجلسِ مشاعرہ ترتیب دیتے تھے، اُس میں مومن خاں و دیگر مشاہیرِ دلّی شریک ہو کر دادِ سخن دیتے تھے۔ پہلے اصغر علی تخلص کرتے تھے، بعد میں نسیم اختیار کیا۔ مزاج میں آزادی اور وارستگی بے حد تھی۔ جو کچھ لکھتے تھے اُن کی نقل اپنے پاس نہیں رکھتے تھے۔ مرنے کے بعد ان کے شاگردوں نے بڑی محنت اور کاوش سے اُن کا کلام فراہم کر کے دیوان مرتب کیا۔ نسیم نے تمام اصنافِ سخن میں قدرتِ کامل پائی تھی، خصوصاً مثنوی میں ان کو یدبیضا حاصل تھا۔ ان کے کلام میں خیال کی دل فریبی اور بیان کی رنگینی کے ساتھ زبان کی صفائی اور پاکیزگی اس قدر نمایاں اور واضح ہے کہ اس کے ساتھ کسی دوسرے کا کلام لگا نہیں کھاتا۔
نسیم دہلوی کا شمار اُردو کے مشہور شعرا میں کیا جاتا ہے۔ نسیم نے شاعری بہ طور تفریحِ طبع اختیار کی تھی لیکن یہی اُن کا فن ٹھہر گیا۔ ناسخ اور آتش کے شاگرد لکھنؤ کی ادبی فضا پر چھائے ہوئے تھے۔ کسی دہلوی شاعر کا اس مجمعِ عام میں نغمہ سرائی کرنا دشوار تھا۔ لیکن نسیم نے بہت جلد فضا ہموار کر لی۔ نسیم دہلوی اپنے معاصرین اہلِ دہلی میں ایک ہی شخص ہیں جس نے اپنی طرزِ بیان کو محفوظ رکھتے ہوئے اہلِ لکھنؤ کی متروکات کو قبول کرنے میں پیش قدمی کی اور زبان کا ایسا اعلیٰ نمونہ پیش کیا کہ شعرائے لکھنؤ نے بھی اس کی داد دی۔ اور یہاں رہ کر اپنے شاگردوں اور عقیدت مندوں کا ایک معقول گروہ پیدا کر لیا۔ نسیم کے ہاں صنائع لفظی و معنوی کے استعمال میں بڑی صنعت گری سے کام لیا گیا ہے اور یہ بات طبعی ہے۔ اگرچہ ان کی افتادِ طبع دہلوی تھی اور شعری زماج بھی دہلی کے سانچے میں ڈھلا ہوا تھا، لیکن لکھنؤ میں، جو صنائع و بدائع لفظی و معنوی پہ گویا مٹا ہوا تھا، انھیں ایسی فضا میسر آئی کہ وہ لکھنوی شعرا کے کلام سے استفادہ کریں۔ اس کلیاتِ نسیم میں 334 غزلیات ، متفرقات (اشعار غزل)، 3 مخمسات، 2 رباعیات، 16 قصائد، 16 قطعات تاریخیِ فارسی، 2 مثنویاں اور تشریحات اور ضمیمے شامل ہیں۔