نظام شاہ نظام کی ولادت رامپور کے محلہ ’’گھیر سخی‘‘ میں 1819ء کے لگ بھگ ہوئی۔ رامپور میں نواب احمد علی خاں کے زمانے میں رام پوری دبستانِ شاعری عروج پر تھا۔ لیکن نظام رامپوری دہلوی زبان کا ہیرو ہے لیکن کہیں کہیں مقامی بولی کی جھلک بھی اس کے کلام میں نظر آتی ہے۔ اس کو اپنا کلام مرتب کرنے کا موقع ملتا تو ان خامیوں کو دُور کر کے لکھنوی اور دہلوی اساتذہ کی طرح اپنا منتخب کلام پیش کرتا۔ اس طرح وہ شہرت میں داغ سے پیچھے نہ رہتا۔ نظام کو بیمار سے تلمذ تھا جو مصحفی اور غفلت (شاگردِ شوق) کے مستفید ہوا تھا۔ نظام اپنی وارفتہ مزاجی کی بدولت مقامی قبولیتِ عامہ کی سند حاصل کرنے کے بعد مستغنی ہو گئے۔ نوابانِ رام پور کے دربار تک ان کا کلام باریاب ہوتا رہا اور وہ اسی پر قناعت کر بیٹھے۔ نظام کے کلام میں فنی خامیاں بہت ہی کم ہیں۔ البتہ متروکات جو اس کے کلام میں نظر آتے ہیں وہی ہیں جو اساتذۂ رام پور استعمال کرتے رہے، اور اس کی وجہ یہ ہے کہ اُن کی نظر میں قدیم اساتذہ کا کلام تھا۔
نظام اپنا ایک منفرد رنگ رکھتے ہیں جس میں داغ کا سا تیور، بانکپن اور شوخی پائی جاتی ہے۔ بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ یہ دراصل انھی کا رنگ ہے جسے داغ نے اپنی شگفتہ مزاجی سے اور چوکھا کر دیا ہے۔ چنانچہ داغ نے نظام کی بہت سی غزلوں پر غزلیں کہی ہیں اور بعض مقامات پر تو نہ صرف مضامین میں توارد ہو گیا ہے بلکہ داغ نے نظام کے مصرعے بہ ادنیٰ تصرف اپنا لیے ہیں۔ تحقیق کام کرنے والوں کے لیے یہ ایک دلچسپ موضوع ہے کہ داغ نے اپنی انفرادیت اور شوخی کس حد تک نظام سے مستعار لی اور اپنا خاص رنگ کس حد تک قائم رکھا۔ الغرض یہ بہ آسانی کہا جا سکتا ہے کہ نظام اپنے معاصرین میں منفرد حیثیت کا مالک ہے اور جو رنگ داغ کو معاصرین سے ممتاز کر گیا ہے، اُس کا بانی نظام رامپوری ہے۔ زیرِ نظر کلیاتِ نظام میں 382 غزلیں، 5 قصائد، 5 قطعات، 5 سہرے، 2 قطعات (فارسی)، 1 غزل (فارسی) شامل ہیں۔ کلیات کے آخر میں اختلافِ نسخ، خاتمہ اور تقریظات بھی موجود ہیں۔