شاہ نصیر دہلوی اپنے عہد کے ممتاز شعرا میں شمار ہوتے ہیں۔ اُنھوں نے اپنی زندگی کا بڑا حصہ سخن ورانہ معرکہ آرائیوں میں گزارا۔ ان کے مطارحوں اور شاعرانہ رزم آرائیوں کا ذکر ان کے بیشتر قریب العہد تذکروں میں موجود ہے جس سے اُن کے زمانے کی ادبی فضا کو سمجھنے میں مدد ملتی ہے۔ بایں ہمہ اُن کی زندگی کا کوئی مربوط خاکہ کہیں نہیں ملتا۔ اتنا ظاہر ہے کہ ایک خانوادۂ تصوف سے تعلق کے باوجود اُنھیں سبحہ و سجادہ سے کہیں زیادہ دلچسپی شعر و سخن سے تھی۔ شاہ نصیر زبان و بیان کے شاعر تھے۔ ان کے بیشتر اشعار زبان کے لحاظ سے سانچے میں ڈھلے ہوئے ہیں۔ ان کی زبان اپنے اکثر معاصرین کے مقابلے میں نئی معلوم ہوتی ہے۔ دہلی کے اسلوب کے تعین میں ان کا بہت بڑا حصہ ہے۔ شاہ نصیر کے دیوان کے قلمی نسخوں میں غالباً قدیم ترین کتب خانۂ آصفیہ کا نسخہ ہے۔ سب سے بعد کا نسخہ رضا لائبریری کا ہے جو بہ اعتبار کلام دوسرے نسخوں سے زیادہ مبسوط اور مکمل ہے۔ کلیاتِ شاہ نصیر کے متن کی ترتیب میں تین قلمی نسخے، دو قلمی انتخاب اور دو مطبوعہ نسخے ڈاکٹر تنویر احمد علوی کے پیشِ نظر رہے ہیں۔ اس کے ساتھ ساتھ اُنھوں نے شاہ نصیر کے عہد کے تذکروں اور بعد کے کچھ مستند مآخذوں سے بھی استفادہ کیا ہے۔ ترتیبِ متن میں قدیم تر اور نسبتاً زیادہ صحیح نسخے کو مرجع سمجھا گیا ہے۔ باقی روایتوں کو حواشی میں جگہ دی گئی ہے۔
شاہ نصیر کا شمار اپنے عہد کے ممتاز شعرا اور دہلی کے نامور اساتذہ میں ہوتا ہے۔ ان کا تعلق ایک خانوادہ تصوف سے تھا، لیکن اس کے باوجود شعر و سخن سے کافی زیادہ دلچسپی تھی۔ ان کی شاعری کا زمانہ اردو شعر ادب کی تاریخ کے اس دور سے تعلق رکھتا ہے جس وقت معنی سے زیادہ صورت اور معیار سے زیادہ مقدار کی اہمیت پر زیادہ زور دیا جا رہا تھا۔ دہلی کے علاوہ بعض دوسرے شہروں میں بھی مشاعرے عام ہو چکے تھے۔ مقامی اور غیرمقامی طور پر گروہ بندیاں بنتی جا رہی تھیں۔ بحور اوزان سے واقفیت اور الفاظ و محاوارت پر قدرت کو کمال استادی اور معیار شاعری سمجھا جانے لگا تھا۔ شاہ نصیر کے شعور و شعر کا مطالعہ ان کے عہد کے اسی ادبی میلان اور شاعرانہ افتاد مزاج کو سامنے رکھتے ہوئے کیا جانا چاہئے۔ ’’کلیات شاہ نصیر‘‘ ان کے تین قلمی نسخوں، دو قلمی انتخابات اور دو مطبوعہ نسخوں کی مدد سے تیار کی گئی ہے۔ کلیاتِ شاہ نصیر کا مکمل اور صحیح متن، مبسوط حواشی کے ساتھ پہلی بار مجلس ترقیِ ادب لاہور نے شائع کیا ہے جسے ایک طویل مبسوط مقدمہ کے ساتھ تنویر احمد علوی نے چار جلدوں میں ترتیب دیا ہے۔ زیر نظر اس کلیات کی جلد دوم ہے جس میں ردیف ر تا ہ کی غزلیات شامل ہیں۔