دبستان دہلی میں ذوق کو بڑی اہمیت حاصل ہے۔ محمد ابراہیم نام اور ذوق تخلص تھا۔ ذوق کو عربی فارسی کے علاوہ متعدد علوم موسیقی، نجوم، طب، تعبیر خواب وغیرہ پر کافی دسترس حاصل تھی۔ طبیعت میں جدت و ندرت تھی۔ تمام عمر شعر گوئی میں بسر کی۔ وہ اس عہد کے شاعر ہیں جب اردو شاعری میں الفاظ و تراکیب کی شوخی اور چستی، محاورہ اور روزمرہ کی خوبصورتی اور قدرت زبان کو بڑی اہمیت دی جاتی ہے، اس اعتبار سے ذوق کو اپنی زندگی میں ہی استادی کی خلعت فاخرہ نصیب ہوئی۔ ذوق نے اسی روش کے پیش نظر شاعری کو اپنی خصوصی لوازم سے معطر کیا اور اپنی شاعری کو فکر و خیال کی توانائیوں اور خوبصورتیوں سے مرصع کیا۔ قصیدہ گوئی کے میدان میں ذوق کا ایک اعلیٰ مقام ہے، ان کی غزلیات اور رباعیات کو اہمیت کی نگاہ سے دیکھا گیا ہے۔ بقول فراق گورکھپوری ذوق کے کلام میں اردو نے اپنے آپ کو پایا۔ روایتی باتوں کو اتنی سنوری ہوئی اور مکمل شکل میں پیش کر دینا ایک ایسا کارنامہ ہے جسے آسانی کے ساتھ بھلایا نہیں جا سکتا۔
زیرِ نظر کتاب کلیاتِ ذوق ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے کئی سال کی محنت کے بعد مرتب کیا ہے۔ تنویر علوی کا اسلوبِ بحث و تحریر قابلِ ستائش ہے۔ وہ کسی پر اعتراض یا تعریض کے روادار نہیں۔ ہر مسئلے کے متعلق جتنے حقائق کا سراغ وہ لگا سکے، اُنھیں اس انداز میں صفحۂ قرطاس پر پھیلا دیتے ہیں کہ خوانندۂ کتاب بے تکلف مطلوب نتیجے پر پہنچ جاتا ہے جو ترتیبِ حقائق کے بعد بالکل بدیہی ہو جاتا ہے۔ پہلے سوانح اور پھر کلیات کے مقدمے میں ڈاکٹر صاحب نے اسی ادبی تحقیق کے طریق کو اپنایا ہے۔ کلیاتِ ذوق کے شروع میں ڈاکٹر صاحب نے اپنے مقدمے میں کلامِ ذوق کے متعلق وہ سب کچھ فراہم کر دیا ہے جو کسی نہ کسی اعتبار سے ضروری اور بہ طور خود غور و فکر کے لیے نفع بخش ہو سکتا تھا۔ ڈاکٹر تنویر احمد نے کلیاتِ ذوق کے مرتب کرنے میں انتہائی چھان بین، تگ و دَو، اہتمامِ تلاشِ جزئیات، دقّتِ نظر اور ژرف نگہی سے کام لیا ہے۔ پہلے کلیات ذوق کو دو جلدوں مرتب کیا گیا تھا۔ لیکن مجلس ترقی ادب لاہور نے جلد اوّل و دوم کی تقسیم تو برقرار رکھی لیکن ایک ہی جلد میں شائع کر دیا ہے تاکہ قارئین کو سہولت رہے۔ جلد اول میں زیادہ تر غزلیات کو پیش کیا گیا ہے۔ جبکہ جلد دوم کو تین حصوں میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلے حصے میں ذوق کے قصائد ہیں، دوسرے حصے میں وہ غزلیات و قصائد ہیں جو محمد حسین کی روایت سے ہم تک پہنچے، جبکہ تیسرے حصے میں ذوق کا فارسی کلام ہے۔ اس کے علاوہ تنویر احمد علوی کا تحقیقی و تنقیدی مقدمہ ذوق اور کلام ذوق کو سمجھنے میں بہت حد تک معاون ہے۔