موجودہ صدی کی چوتھی اور پانچویں دہائی میں ریڈیو کے حوالے سے جن اہلِ قلم نے بطور تمثیل نگار شہرت پائی، ان میں ایک نام رفیع پیر کا بھی ہے۔ رفیع پیر اُس دور میں پیرزادہ رفیع کہلاتے تھے۔ انہوں نے ڈرامے کی تربیت جرمنی سے پائی۔ آل انڈیا ریڈیو سے اپنی آواز کا جادو جگا کر ہزاروں کے دل موہ لیے۔ رفیع پیر صرف صداکار ہی نہیں، بلکہ تمثیل نگار، اداکار، ہدایت کار بھی تھے اور ان سبھی شعبوں میں انھیں کمال حاصل تھا۔ پیر صاحب تمثیل نگاری میں بڑے مشکل پسند واقع ہوئے تھے، اس سلسلے میں ان کے اپنے ہی ضوابط تھے۔ وہ ڈراموں میں ایک اونچے مقام پر کھڑے نظر آتے ہیں۔ ان کے مکالموں میں سطحیت، سستی جذباتیت نہیں بلکہ ادیبانہ خلاقیت کا رنگ بڑا گہرا ہے۔ دوسرے وہ بالعموم ایک ہی منظر میں ڈرامے کے سارے واقعات پیش کر دیتے تھے۔ پیر صاحب خوبصورت شعروں سے بھی حسبِ منشا کام لیتے ہیں، جو کہ اُردو اور فارسی کے کلاسیکی شعرا کے کلام سے ماخوذ ہوتے ہیں۔ پیر صاحب احتیاط کے پیشِ نظر رسائل و جرائد کو ڈرامے اشاعت کے لیے نہ دیتے تھے کہ کتابت وغیرہ کی غلطیاں رہ جائیں گی۔ رفیع پیر کے ڈرامے تمثیلی ادب کا ایک اہم حصہ ہیں۔ یہ ہمارا تاریخی ورثہ ہیں، جنہیں محفوظ کرنا ہمارا فریضہ ہے۔ ان کی اہمیت آج بھی مسلّم ہے۔ اُردو ڈرامے کے ارتقا میں رفیع پیر کے ڈرامے ایک تابناک باب کی حیثیت سے پہچانے جائیں گے۔ پارسی تھیٹر کے زوال کے بعد جن مصنّفین نے ڈرامے کو زندہ کرنے کی نہایت مخلصانہ کوشش کی تھی، پیر صاحب کا نام ان کی فہرست میں نمایاں مقام پر جگہ پاتا ہے۔
اس جلد میں رفیع پیر کے آٹھ ڈرامے شامل کیے گئے ہیں، جن کے نام: نقاب، موت سے ملاقات، سناٹا، راز و نیاز، دیوانہ بکارِ خویش ہشیار، ساحل، مارِ آستین، نواب صاحب قبلہ ہیں۔ کتاب کے شروع میں رفیع پیر کا 1960ء کا لکھا ہوا ایک مضمون بعنوان ’’پاکستان میں ڈرامے کا مستقبل‘‘ بھی شامل ہے۔ مرتب نے تا بہ حدِ امکان ان ڈراموں کے متن کی تصحیح کر دی ہے۔