ادب کے انتخاب اتنے ہی قدیم ہیں جتنا قدیم خود ادب ہے۔ دُنیا کی ہر زبان میں ادبی انتخاب کسی نہ کسی شکل میں موجود رہے ہیں۔ چونکہ غزل ایک مقبول صنفِ ادب ہے اسی لیے اس کے انتخابی مجموعے بیاضوں اور تذکروں کی شکل میں کیا جاتا رہا ہے۔ غزل کے اس انتخابی سلسلے میں شہزاد احمد کا مرتبہ مجموعہ رنگِ غزل منفرد مقام رکھتا ہے۔ یہ ضخیم مجموعہ 1947ء سے 1988ء تک کے نمائندہ غزل گو شاعروں کی منتخبہ غزلیات پر مشتمل ہے۔ گویا رنگِ غزل بیسویں صدی کے نصف آخر کی اُردو غزل کا ایک نمائندہ انتخاب ہے۔ 1947ء میں ہونے والی وسیع قتل و غارت اور وسیع پیمانے پر نقل و مکانی کا غزل پر اثر واضح اور نمایاں تھا کہ عوام کی ناآسودگی شاعری کے عام موضوعات بن گئے۔ غزل گو شعرا نے عموماً ان موضوعات کو علامت و استعارے کے وسیلے سے پیش کیا۔ بین الاقوامی حالات بھی غزل گو شعرا کی نظر سے اوجھل نہیں رہے۔ تیسری دُنیا کے ممالک کو استعماری طاقتوں نے اسیر کرنے کے لیے نئے اقتصادی اور سیاسی حربے استعمال کیے، پھر سائنس کی مختلف شاخوں اور معاشرتی علوم کی تیز رفتار تحقیقات و ایجادات نے فرد و معاشرے کی سوچ میں جو دُور رس تبدیلیاں کیں۔ ان سے بھی اس عہد کی غزل کے فکری نظام میں وسعت آئی۔ غرض بیسویں صدی کے نصف آخر کی غزل موضوعاتی وسعت اور اسلوبیاتی تنوع کی ایک نئی دُنیا ہمارے سامنے لاتی ہے اور ہر رنگ اور مزاج کے شعرا اپنی اپنی انفرادتیوں کو غزل میں سمونے کی کوشش کرتے دکھائی دیتے ہیں۔
شہزاد احمد مذکورہ دور کی غزل کے ایک اہم نمائندہ شاعر ہیں اور اس کے باریک بیں قاری بھی۔ وہ بہت وسیع المطالعہ شخص ہیں، علاوہ ازیں سائنس، فلسفہ، نفسیات اور دیگر علومِ جدیدہ سے ان کی آشنائی قابلِ رشک ہے۔ ایسا شخص جب شعری انتخاب کی جانب متوجہ ہوگا تو اپنی مطالعاتی اور ذہنی وسعتوں کو اس میں سمو دے گا۔ چنانچہ یقین سے کہا جا سکتا ہے کہ رنگِ غزل اس دور کی غزلیات کا ایک ایسا بے مثال نمائندہ انتخاب ہے جس میں اس عہد کی موضوعاتی اور اسلوبیاتی رنگارنگی کو بڑی کامیابی سے ایک عمدہ مجموعے کی شکل میں یک جا کر دیا گیا ہے۔ اُردو غزل کے قارئین اس انتخاب سے اُردو غزل کے جدید رجحانات کا بخوبی مطالعہ کر سکتے ہیں۔