شیکسپیئر کا شمار دُنیا کے عظیم ترین شاعروں اور عظیم ترین ڈراما نگاروں میں ہوتا ہے۔ دُنیا بھر کے مستند نقادوں کی رائے کے مطابق شیکسپیئر دُنیا کا سب سے بڑا ادیب ہے۔ دُنیا کی مختلف زبانوں میں کسی اور مصنف کے اس قدر تراجم نہیں ہوئے، جتنے شیکسپیئر کے ہوئے ہیں۔ قبولِ خاص و عام کا جو درجہ شیکسپیئر کو حاصل ہوا شاید ہی کسی اور کو حاصل ہوا ہو۔ لیکن اس کے باوجود کس قدر عجیب بات ہے کہ اُردو میں نہ تو شیکسپیئر کے ڈراموں کا کوئی مستند ترجمہ ہوا ہے اور نہ ہی اس کے متعلق کوئی مستقل کتاب لکھی گئی ہے۔ ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ قاعدے اور سلیقے کے ساتھ اس کے ڈراموں کا ترجمہ ہوتا اور اس کے ساتھ مفصل تنقید کی جاتی لیکن یہ کام کسی ایک شخص یا پبلشر کے بس کا نہیں ہے، بلکہ کوئی علمی ادارہ اس کا بندوبست کرے تو جب ہی ممکن ہو سکتا ہے۔ صدیق کلیم اس سلسلے میں بارش کا پہلا قطرہ ثابت ہوئے ہیں کہ اُنھوں نے شیکسپیئر پر ایک کتاب لکھ دی ہے، یہ اپنی قسم کی پہلی کتاب ہے۔ اس اعتبار سے اس کی جتنی بھی داد دی جائے کم ہے۔
مصنف نے بڑے سلیقے سے اُردو دان پبلک کو شیکسپیئر سے متعارف کروایا ہے۔ اس کی جملہ خوبیوں پر تبصرہ کیا ہے اور شیکسپیئر کے عمرانی ماحول پر بھی روشنی ڈالی ہے۔ جابجا شیکسپیئر کے اشعار کے ترجمے بھی ہیں۔ مصنف نے ان باتوں کو ذہن میں رکھا جن پر وہ بار بار زور دیتا ہے اور ان تمام مسائل کو آخری باب میں ترتیب میں لانے کی کوشش کی ہے۔ ڈراموں پر بحث کرتے ہوئے مصنف نے ان کے ماحول اور ادبی خوبیوں کو بھی اُجاگر کرنے کی کوشش کی ہے، اس سلسلے میں بعض تقریروں اور خودکلامیوں کے ترجمے بھی کیے ہیں تاکہ کردار کے ذہن اور اس کی شدتِ جذبات وغیرہ سے پڑھنے والے متعارف ہو سکیں۔ الغرض پڑھنے والا انگریزی جانے بغیر شیکسپیئر کے متعلق ایک واضح رائے قائم کر سکتا ہے۔ یہ مشکل کام تھا اور کرنے کا کام تھا۔ کلیم صاحب نے یہ کام خوش اسلوبی سے کیا کہ وہ انگریزی ادب اور اُردو ادب دونوں پر گہری نظر رکھتے ہیں۔ انگریزی میں ایم۔اے کیا، اُردو میں شعر کہتے ہیں اور کالج میں شیکسپیئر پڑھاتے ہیں۔ نئے لوگوں میں ایسے مجتمع صفات لوگ کم ہیں۔