شاعری پر آج تک جو کچھ لکھا گیا ہے، وہ کبھی حرفِ آخر کی شکل اختیار نہیں کر سکا لیکن اس سے ہماری آگاہی میں بہت حد تک اضافہ ہوا اور ہمارے ذوق میں وسعت اور گہرائی ضرور پیدا ہوئی ہے۔ ارسطو کی ’’بوطیقا‘‘ ہمارے لیے کلی طور پر قابلِ غور نہ سہی، لیکن اس سے انکار نہیں ہو سکتا کہ اس کا مطالعہ آج بھی فائدہ مند ہے۔ ’’شاعری اور تخیل‘‘ ایک قابلِ قدر تصنیف ہے۔ اس موضوع پر اُردو میں پچھلے پچیس تیس برس میں اس سے بہتر کوئی کتاب شائع نہیں ہوئی۔ ایسا اس لیے نہیں ہے کہ مصنف نے اس کتاب میں کوئی نیا نظریہ پیش کیا ہے یا پھر کوئی انوکھی بات کی ہے، بلکہ ایسا اس لیے ہے کہ جس متانت، گہرائی اور سوچ بچار سے اس موضوع پر مختلف آرا کو یکجا کر کے پرکھا گیا ہے اور جس سلاست سے ان کے اہم نکات کو عیاں کیا گیا ہے وہ بیشتر نقادوں کے بس کی بات نہیں ہے۔
اس کتاب میں مصنف نے نہ صرف دقیق اور اہم مسائل سے بحث کی ہے بلکہ ان کو بہت خوبی سے واضح بھی کر دیا ہے۔ نہایت باریک نکات کو جچے تلے الفاظ میں نہایت سلاست سے بیان کرنا مصنف کا اہم کارنامہ ہے۔ پہلے باب، شاعری کے کارنامے کے موضوع میں مصنف نے شاعری کی حقیقت پر روشنی ڈالی ہے اور اقرار کیا ہے کہ شاعری کی کوئی جامع اور مانع تعریف نہیں ہو سکتی۔ شاعری کے مختلف پہلوؤں، کلام کی موزونیت، توازن، الفاظ کی صوتی اہمیت اور سماعی لذت اور اس نوع کی دیگر چیزوں سے بحث کر کے وضاحت کی ہے۔ دو باب ایسے ہیں جہاں ہادی حسین نے بہت سے مشہور نقادوں کی آرا نقل کی ہیں لیکن اپنی رائے پوری تفصیل سے نہیں دی۔ نویں باب میں تخیل، الہام اور تکنیک کے بارے میں اُنھوں نے جو لکھا وہ مزید تفصیل کا حقدار تھا۔ بہرحال یہ کتاب اُردو تنقید میں ایک قابلِ قدر اضافہ ہے۔ کتاب کے آخر میں اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔