سرسیّد کی قائم کردہ سائنٹفک سوسائٹی کی تاریخ کا تقریباً ہر ورق اور اس کی ہر کروٹ محفوظ و موجود ہے، زیرِ نظر کتاب اور تاریخ اسی سوسائٹی کی روئدادوں پر مشتمل ہے۔ سوسائٹی کی اس تاریخ کی ساری شہادتیں علی گڑھ آرکائیوز، مولانا آزاد لائبریری، کریمیہ لائبریری بمبئی، برٹش لائبریری لندن، رائل ایشیاٹک سوسائٹی لندن، اسکول آف اورینٹل اینڈ افریقن اسٹڈیز لندن، بوڈلین لائبریری آکسفورڈ یونیورسٹی کیمبرج اور اڈنبرا یونیورسٹیوں کے کتب خانوں سے چنی گئی ہیں۔ سرسیّد کی سائنٹفک سوسائٹی کے کوائف سے عدم واقفیت کے سبب فاضلوں نے 1842ء کی دہلی ورناکیولر ٹرانسلیشن سوسائٹی کی طرح اسے بھی ایک ترجمہ کا بیورو سمجھ لیا ہے۔ جبکہ یہ سوسائٹی ہندوستان کی فلاح و بہبود، معاشی خوشحالی، عام روشن ضمیری پھیلانے، سائنسی سوچ اور سائنسی تجسّس کی ایک نئی لہر پیدا کرنے کے لیے افراد کی ایک منظم اور مسلسل باہمی تعاون پر مشتمل ایک تنظیم تھی۔ سائنٹفک سوسائٹی میں ترجمہ کا آغاز سائنس کی کتاب کے بجائے رولن کی تاریخِ مصر سے ہوا جس سے سوسائٹی میں ثقافتی بوقلمونی اور عالمی نقطۂ نظر کو فروغ دینے کی شروعات ہوئی۔ سائنٹفک سوسائٹی کا دفتر جب علی گڑھ منتقل ہوا تو اس کی سرگرمیوں میں بہت اضافہ ہو گیا۔ 1866ء میں اخبار ’’سین ٹیفک سوسیٹی‘‘ کا اجرا ہوا۔ سوسائٹی کے مالی معاملات میں سرسیّد کی احتیاط اور دیانت دیدنی تھی، اس کا اندازہ روئدادوں میں سوسائٹی کے حسابات سے ہوگا کہ کہیں کسی محاسب کو انگلی رکھنے کی جرأت نہیں ہوئی۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ سوائے سائنٹفک سوسائٹی علی گڑھ کے انیسویں صدی کے ہندوستان کی کوئی سوسائٹی ایسی نہیں جس کی مکمل تاریخ دستیاب ہو۔ یہ روئدادوں کا مجموعہ نہیں گلدستۂ دانش ہے۔ اس سے انیسویں صدی کے سماجی اور دانش ورانہ رویوں کو پرکھنے، تخلیق اور بیداری کے ایک متحرک دور کا اندازہ کرنے، نیز سرسیّد اور ان کے ہم نواؤں کے اضطراب، بے چینی اور تدبر کو سمجھنے میں مددملے گی۔ کتاب کے آخر میں ضمیموں اور تتموں کے علاوہ مآخذ و مصادر اور اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔