ایرانی ادبیات میں نثر کی چند کتابیں شاہکار شمار کی جاتی ہیں مثلاً قابوس نامہ، سیاست نامہ، چہار مقالہ، گلستان اور سیاحت نامۂ ناصر خسرو وغیرہ۔ ’’سیاست نامہ‘‘ کے مؤلف نظام الملک طوسی نے سلجوقی فرماں روا کی فرمائش پر ملک کی سیاست اور حکومت کے نظم و نسق پر بڑے مستحکم پیرائے میں جن خیالات و نظریات کا اظہار کیا ہے، وہ اپنی مثال آپ میں ہیں۔ فاضل مؤلف نے چھوٹے چھوٹے جملوں میں سلیس اور سادہ الفاظ میں اپنے مطالب ادا کیے ہیں۔ ابو علی حسن بن علی ’’نظام الملک طوسی‘‘ کے لقب سے معروف ہوا۔ وہ سلجوقی فرماں روا الپ ارسلان کا پہلے اتالیق اور بعد ازاں وزیراعظم مقرر ہوا۔ یہ وہی الپ ارسلان ہے جس نے بغداد کی مشہور و بے مثال یونیورسٹی ’’نظامیہ‘‘ کی بنیاد رکھی تھی۔ اِسی دانش گاہ میں دیگر متعدد اکابر کے علاوہ حجۃ الاسلام امام غزالی درس دیا کرتے تھے۔ الپ ارسلان کے بعد ملک شاہ سلجوقی تخت نشین ہوا اور اسی کے ایما پر ’’سیاست نامہ‘‘ کی تالیف عمل میں آئی۔
’’سیاست نامہ‘‘ میں مولف نے اسلام میں پیدا ہونے والے مختلف ملحدانہ فرقوں کا ذکر بھی تفصیل سے کیا ہے مثلاً باطنی، خرم دینی اور مزدکی وغیرہ۔ اس ضمن میں اس نے ان سابقہ بادشاہوں کا بھی ذکر کیا ہے جنھوں نے ان باطل فرقوں کی بیخ کنی کی۔ ’’سیاست نامہ‘‘ کے مترجم پروفیسر مرزا محمد منور اُردو کے ممتاز عالم اور ادیب تھے۔ عربی، فارسی اور انگریزی میں بڑی دستگاہ رکھتے تھے۔ اُنھوں نے مجلس ترقی ادب کے لیے اس کتاب کا رواں اور جستہ اُردو ترجمہ کیا۔ یہ کتاب اقتدار کی غرض و غایت اور کیفیات کو ظاہر کرتی ہے۔ یہ ایک بڑی خدمت ہے کہ سلاجقۂ کبیر کے متعلق ایک ایسی کتاب اُردو میں وجود میں آئی جو اپنے موضوع پر سند کا درجہ رکھتی ہے۔