تاریخ ادب اُردو کی یہ چوتھی جلد ہے۔ جو انیسویں صدی کے نصف آخر کے اردو ادب کا احاطہ کرتی ہے۔ انیسویں صدی کا نصف آخر برعظیم کی تاریخ کا فیصلہ کُن دور تھا۔ انگریز دو تہائی ہندوستان پر قابض تھے۔ اور اب پورے ہندوستان پر قبضے اور اپنے اقتدار کو مستحکم کرنے کی تدبیریں کر رہے تھے۔ اور ہندوستان کے ہندو مسلمان ان سے نجات حاصل کرنے کی خواہش دل میں لیے، بھرے بیٹھے تھے۔
اس جلد میں مصنف نے کتاب میں چار فصلیں قائم کی ہیں۔ پہلی فصل میں کل اکیس ابواب ہیں جو کہ تین الگ الگ حصوں میں ہیں۔ پہلے حصے میں سات ابواب ہیں جو غالب کے دور سے متعلق ہیں۔ دوسرے حصے میں پانچ ابواب ہیں جن میں چند دیگر بڑے شعرا کا ذکر کیا گیا ہے۔ اس کے بعد اس فصل کا تیسرا اور آخری حصہ آتا ہے جس میں کل نو ابواب باندھے گئے ہیں اور چند دیگر ممتاز شعرا کا تذکرہ کیا گیا ہے۔ اس کے بعد فصل دوم اُردو مرثیے سے متعلق ہے جس میں کل تیرہ ابواب ہیں جو کہ تین الگ الگ حصوں میں تقسیم کیے گئے ہیں۔
پہلے حصے میں انیس و دبیر سے قبل مرثیہ نگاری کے پس منظر پر پانچ ابواب ہیں۔ پھر دو ابواب انیس و دبیر پر قائم کیے گئے ہیں۔ تیسرے حصے میں چھ ابواب میں دیگر مرثیہ گو شعرا کا تذکرہ ہے۔ تیسری فصل میں دورِ جدید کی توسیع کا احاطہ کیا گیا ہے اور اُردو کے عناصرِ خمسہ یعنی سرسیّد احمد خان، الطاف حسین حالی، محمد حسین آزاد، شبلی نعمانی اور نذیر احمد کے ادب کا تفصیلی ذکر ہے۔ چوتھی فصل میں اُردو داستانوں اور داستان گو نثرنگاروں کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ آخر میں جدید دور کا ارتقا بھی دیا گیا ہے۔ کتاب کے آخر میں افراد و اشخاص، کتب و رسائل، مخطوطات اور مطبوعات پر مبنی سیّد معراج جامی اور سیّد محمد معروف کا مرتب کردہ اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔