مرزا مقبول بیگ بدخشانی ان خوش نصیب لوگوں میں سے ہیں جنھوں نے اوائل عمر میں فارسی زبان و ادب کی شمع سے لو لگائی اور پھر ماہ و سال کا کوئی انقلاب انھیں صراطِ مستقیم سے منحرف نہ کر سکا۔ فارسی کے پروفیسر کی حیثیت سے اُنھوں نے جو خدمات سرانجام دیں وہ اپنی جگہ لیکن فارسی زبان و ادب کے مطالعے کے سلسلے میں ’’تاریخِ ایران‘‘ کی تالیف کا کام نہایت اہمیت کا حامل ہے۔ ایران کے متعلق تاریخی مواد انگریزی اور بعض دوسری یورپی زبانوں میں بڑی کثرت سے موجود ہے۔ اُردو زبان و ادب کو جو تعلق فارسی سے ہے، اور ایرانی تاریخ کے پس منظر سے ہے، اس کا لحاظ کیا جائے تو یورپ کی نسبت ہمارے لیے ان معلومات سے آگاہ ہونا بہت ضروری ہے جو اہلِ ایران کی ہزار سالہ تاریخ کا تار و پود بناتی ہیں۔ بدخشانی صاحب نے ایران کی مفصل تاریخ دو جلدوں میں لکھ کر ایک مفید علمی و ادبی خدمت انجام دی ہے۔
’’تاریخ ایران‘‘ اردو دان طبقہ کے لیے ایک قیمتی دستاویز ہے جو اپنے اندر بیش بہا معلومات کا خزینہ لیے ہوئے ہے۔ اس میں ایران کی تاریخ کے حوالے سے قریبا تمام پہلووں سے بحث کی گئی ہے۔ مثلاً ایران کے حدود اربعہ، تہذیب و ثقافت، انداز سیاست، فنون لطیفہ، زبان کا ارتقاء اور مذہب کے حوالے سے سیر حاصل بحث کی گئی ہے۔ کتاب کو آٹھ مختلف ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ جن میں درج ذیل امور پر بحث کی گئی ہے۔ ایران کے طبعی حالات، ہمسایہ اقوام، ایران کا دور قبل از تاریخ، قدیم ایران کے آریا اور آلِ ماد، ہخامنشی دور، سیلوکی دور، اشکانی دور اور ساسانی دور وغیرہ۔ مذکورہ تالیف دو ضخیم جلدوں میں ہے۔ اس کے مولف پروفیسر مقبول بیگ بدخشانی ہیں جو ایرانی تاریخ کے ساتھ ساتھ فارسی زبان کے ادیب بھی ہیں۔ موصوف متعدد کتب کے مصنف اور فارسی کے پروفیسر ہیں۔