یہ اُس کم نصیب خاندان کی سرگزشت ہے، جس نے علاء الدین خوارزم شاہ ایسے باجبروت سلطان کو جنم دیا۔ یہ وہ جلیل المرتبت حکمران ہے، جس کی سلطنت ترکستان کے سرسبز مرغزاروں سے سندھ کے خشک ریگستانوں تک پھیلی ہوئی تھی، اور جس کی سلطوت کے خوف سے خلیفۂ بغداد کی نیند حرام ہو گئی تھی۔ لیکن انجامِ کار، اس کی خودسری اور ناعاقبت اندیشی کے صدقے میں، عالمِ اسلام ایسی ہولناک تباہی اور ناقابلِ بیان بربادی سے دوچار ہوا کہ تاریخِ عالم اس کی مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ اس کتاب میں اُن اسباب و علل کو واضح کرنے کی کوشش کی گئی ہے جو ابتداءً اس خاندان کے حیرت انگیز عروج اور بعد ازاں عبرت ناک زوال کا باعث بنے۔ اور چونکہ نظامِ کائنات میں ترقی و تنزل حقائقِ ثابتہ کی حیثیت سے قائم و دائم ہیں، اس لیے ہر قوم ان تاریخی واقعات کے آئینے میں اپنے خدوخال کا مشاہدہ کر سکتی ہے، اور اندازہ لگا سکتی ہے کہ جس راہ پر وہ چل رہی ہے، اُس کا رُخ کدھر کو ہے۔ مسلمانانِ عالم تاریخ کے نہایت نازک موڑ پر کھڑے ہیں، اگر انھوں نے ماضی کے واقعات سے عبرت حاصل نہ کی، اور خام خیالیوں میں مگن رہے تو یہی کہا جا سکتا ہے کہ اتنی ناکامیوں کے بعد بھی انھوں نے تاریخ سے کچھ نہیں سیکھا۔
فتنۂ تاتار آشوبِ قیامت سے کم نہیں تھا۔ دس سال کے اس پُرفتن دور میں کم و بیش ایک کروڑ بے گناہ انسان تاتاری وحشت و درندگی کا شکار ہو گئے۔ شہر اور بستیاں جلا دی گئیں، کتب خانے اور لائبریریاں نذرِ آتش کر دی گئیں، سکول اور کالج تباہ و برباد ہو گئے، مسجدیں اور خانقاہیں مغلوں کے گھوڑوں اور خچروں کے اصطبل بنا دی گئیں اور شش صد سالہ اسلامی تمدن اور ثقافت حرفِ غلط کی طرح مٹ گئے۔ ایسا کیوں ہوا؟ اس سوال کا جواب اس کتاب میں تلاش کیا جا سکتا ہے۔ کتاب کے آخر میں کتابیات اور اشاریہ بھی دیا گیا ہے۔