اُردو شعرا کا یہ منفرد خصوصیات کا حامل تذکرہ قادر بخش صابر کی تالیف ہے۔ صابر، شاہ عالم گیر ثانی کی اولاد میں سے تھے۔ اُن طبیعت آغازِ کار ہی سے سخن فہمی اور سخن طرازی کی طرف مائل تھی۔ انہوں نے ماضی کے ماضی و حال کے اُردو شعرا کے کلام کا بہ دقتِ نظر مطالعہ کیا۔ صابر کے اس بے نظیر تذکرے کی پہلی خصوصیت تو یہ ہے کہ اس میں صرف معاصروں کے احوال سے تعرض کیا گیا ہے اور اُنھیں کے کلام کا انتخاب درج کیا گیا ہے۔ یہ بڑی اہم بات ہے کیوں کہ اس کے ذریعے ہم اس اہم زمانے کے اجتماعی مزاج شعری، معاصر ادبی تحریکات وغیرہ سے آشنا ہوتے ہیں۔ اس تذکرے کی دوسری خصوصیت یہ ہے کہ شعرائے معاصرین میں بھی صرف دہلی کے شعرا کا تذکرہ اصلاً ملحوظِ خاطر رہا ہے؛ دہلی کے شعرا کے علاوہ صرف انھیں سخن طرازوں کا تذکرہ کیا گیا ہے، جنھیں مشاہیر میں شمار کیا جا سکتا ہے۔
شروع میں صابر نے ایک نہایت فاضلانہ مقدمہ لکھا ہے، جس میں زبان، حروفِ تہجی، الفاظ، اُردو زبان، فصاحت، محاورہ، روزمرہ، علمِ عروض و قوافی اور اقسامِ شعر و شاعری وغیرہ کے مسائل بیان کیے ہیں۔ اس تذکرہ میں شعرا کا ذکر بترتیب حروفِ تہجی کیا گیا ہے اور انتخابِ کلام میں بہت احتیاط برتی گئی ہے۔ اس تذکرے سے بہت سے غیرمعروف شعرا کا پتا چلتا ہے جن کے اشعار ضرب المثل بن چکے ہیں۔ صابر کا ذوقِ سلیم مسلم ہے۔ انتقاد میں اُن کی رائے اکثر و بیشتر صائب ہوتی ہے۔ اس تذکرے کی اہمیت کے پیشِ نظر مرتب خلیل الرحمان دائودی نے یہ نسخہ بڑی محنت سے مرتب کیا ہے۔ کتاب کے شروع میں مرتب اور ڈاکٹر وحید قریشی صاحب کے قلم سے ایک مقدمہ بھی شامل ہے۔ اس مقدمہ میں ان مسائل سے بحث کی گئی ہے جو صابر کے حالاتِ زندگی اور ان کی تصنیف کے متعلق اہلِ علم کے ذہنوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ یہ کتاب دو جلدوں میں شائع کی گئی ہے، پیشِ نظر اس کی جلد اوّل ہے۔