تذکرہ ’’مخزن نکات‘‘ یعنی تذکرہ شعرائے اُردو
قائم چاند پوری کا کلام ہر صنف میں موجود ہے۔ قائم نے تذکرہ مخزن نکات (1168ھ/مطابق1754ء) میں ہر دور کے شعراء کا حال الگ الگ لکھا ہے جو مستند سمجھا جاتا ہے۔ اسپرینگر نے قدیم ہندوستانی ادب کی تاریخ لکھنے کے سلسلے میں ’’مخزنِ نکات‘‘ کو سب سے اہم مآخذ قرار دیا ہے۔ یہ رائے ایک ایسے شخص کی ہے جو ’’نکات الشعرا‘‘ اور ’’تذکرۂ ریختہ گویاں‘‘ کا بھی تفصیلی مطالعہ کر چکا تھا۔ اس اہمیت کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ مؤلف نے اُردو شاعری کے ادوار یا طبقات متعین کر کے تذکرے اور تاریخِ ادب میں باہم ربط قائم کیا؛ دوسرے یہ کہ باوجود سنین مُعین نہ ہونے کے اس نوعیت کے اشارے اس تذکرے میں مل جاتے ہیں، چنانچہ اُردو ادب کی تاریخ مرتب کرنے میں جتنی راہ نمائی اس سے مل سکتی ہے، کسی دوسرے معاصر تذکرے سے نہیں مل سکتی۔ قائم چاند پوری خود ایک بڑے شاعر تھے اور شعر کو پرکھنے کی صلاحیتوں کا جس خوبی، ہمدردی اور غیرجانبداری سے اس تذکرے میں استعمال کیا گیا ہے وہ بھی قدیم تذکروں میں شاذ ہی نظر آتا ہے۔
’’مخزن نکات‘‘ 1168ھ کی تالیف ہے۔ زیرِ نظر نسخے کا متن انڈیا آفس لائبریری، لندن، کے مخطوطے کے مطابق ہے۔ اور گمان یہ ہے کہ یہ وہی نسخہ ہے جو کبھی شاہ اودھ کے کتب خانے کی زینت تھا اور جس سے اسپرینگر نے اپنی فہرستِ شعرا کی تیاری میں مدد لی تھی۔ موجودہ متن اسی نسخے کے مطابق ہے۔ البتہ موجودہ ایڈیشن کی تیاری میں انجمن ترقی اُردو کے مطبوعہ نسخے کو بھی سامنے رکھا گیا ہے اور اختلافِ نسخ کو حواشی میں درج کر دیا گیا ہے۔ آخر میں ایک ’’ضمیمہ‘‘ بھی منسلک ہے جو قائم کے علاوہ تذکرہ ہائے میر اور گردیزی میں شامل تمام شعرا پر مشتمل ہے۔ جن شعرا کے سنین وفات تحقیق ہو سکے وہ درج کر دیے گئے ہیں؛ باقی کے بارے میں بھی مختصر مگر مفید معلومات اس فہرست میں موجود ہیں۔ مجلس اس سے پہلے ’’کلیاتِ قائم‘‘ شائع کر چکی ہے اور یہ قائم کا دوسرا علمی کارنامہ ہے جو مجلس ترقی ادب نے پیش کیا ہے۔ کلیات کی طرح تذکرۂ قائم بھی علمی حلقوں میں خاطر خواہ مقبول ہے۔