یہ کتاب دراصل ڈاکٹر مُعین الدین عقیل کا ڈاکٹر ابوللیث صدیقی کی نگرانی میں لکھا گیا پی ایچ ڈی کا مقالہ ہے۔ اس مقالے میں یہ کوشش کی گئی ہے کہ برعظیم کے مسلمانوں کی تاریخ اور ان کی جدوجہد کے عظیم نتائج اور مراحل پر اثرانداز ہونے والے ہیجانات کے تاریخی پس منظر کو سمجھا جائے اور یہ دیکھا جائے کہ اُردو زبان نے مسلمانوں کی ملّی تحریکات کے فروغ اور مسلمانوں میں ملّی شعور کو بیدار کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔ دراصل مصنف نے اس مطالعے کی ابتدا اپنے ایک مقالے ’’تحریکِ پاکستان کا لسانی پس منظر‘‘ سے کی تھی۔ اس میں برعظیم کے لسانی تنازعے، اس کے مسائل اور سیاسی پس منظر میں دکھایا گیا تھا کہ اُردو کی جانب ہندوؤں کے معاندانہ رویوں سے مجبور ہو کر مسلمان اپنی تہذیب اور مہذیب کے تحفظ کی بابت سوچنا شروع ہو گئے تھے۔ زیرِ نظر مطالعہ اس سلسلے کی اگلی کڑی ہے۔ اس مقالے کا بنیادی نقطۂ نظر یہ تھا کہ برعظیم کی تمام اسلامی تحریکات ایک ہی سلسلے میں منسلک ہیں اور ان کی انتہا تحریکِ پاکستان ہے، اور ہر تحریک کی بنیادی ضرورت اُردو زبان رہی ہے۔ اسی لیے اس کا آغاز تحریکِ اسلامی کے بالکل ابتدائی زمانے سے ہوا اور اس میں تمام اہم مندرجات شامل کیے گئے جنھوں نے آزادی کے اہم مراحل کو متاثر کیا تھا یا ان میں وہ شامل رہے تھے۔ اس مقالے میں بعض عنوانات اور موضوعات پر تفصیلی نظر ڈالی گئی ہے جبکہ بعض عنوانات کے تحت محض اشاروں اور صرف چند مثالوں پر اکتفا کیا گیا ہے کیونکہ اس کے بعض مندرجات پر مؤقر تحقیقی کام ہو چکا ہے۔
مقالے کی اشاعتِ ثانی سے قبل اس پر نظرثانی کی گئی جس کی وجہ سے چند ناگزیر تبدیلیاں کی گئیں ہیں۔ باب اوّل تحریکِ آزادی کے تاریخی و سیاسی پس منظر کو قارئین و ناقدین کی فرمائش پر علیحدہ کتابی صورت میں ’’آزادی کی قومی تحریک‘‘ کے عنوان سے شائع کیا گیا۔ زیرِ نظر کتاب کی یہ اشاعت ’’جنگِ آزادی 1857ء کی ڈیڑھ سو سالہ تقریبات‘‘ کی مناسبت سے منظرِ عام پر لائی گئی، کیونکہ جنگِ آزادی خود اس کا مختلف عنوانات کے تحت ایک اہم موضوع ہے۔ زیرِ نظر مقالے کا مقصد یہ جائزہ لینا ہے کہ اُردو زبان نے مسلمانوں کی ملّی تحریکات کے فروغ اور مسلمانوں میں ملّی شعور کو بیدار کرنے اور ان کی سیاسی تحریکات کو بارآور کرنے میں کیا کردار ادا کیا ہے۔