محکمۂ تعلیم نے غالباً 1890ء کے لگ بھگ ایک رزولیوشن پاس کیا، جس کی رُو سے سرکاری مدارس میں ایسی کتابیں پڑھانے کی ہدایات کی گئی جن میں اخلاق کی اعلیٰ درجے کی باتیں بیان کی گئی ہوں۔ چوں کہ سرکاری مدارس میں ہر قوم اور مذہب کے بچے تعلیم حاصل کرتے تھے، اس لیے اس بات کا خاص التزام کیا گیا کہ ان کتابوں میں ایسی باتیں بیان کی جائیں جو تمام قوموں میں قدرِ مشترک کی حیثیت رکھتی ہوں۔ شاید اسی رزولیوشن سے متاثر ہو کر مولوی ذکاء اللہ نے اخلاقیات کے موضوع پر قلم اُٹھایا۔ اُنھوں نے علمِ اخلاق پر چھ کتابیں تالیف کیں جو مختلف مذاہب کی کتب سے ماخوذ ہیں۔ انگریزی، عربی، فارسی، ہندی، سنسکرت اور اُردو کی بیسیوں کتابیں کھنگال کر اُنھوں نے یہ کتابیں مرتب کی ہیں۔
مولوی ذکاء اللہ نے اخلاقیات پر سب سے پہلے جو تین کتابیں لکھیں، ان میں سے پہلی ’’تہذیب الاخلاق‘‘ ہے جو ہندو مت کی علمِ اخلاق کی کتابوں سے ماخوذ ہے۔ مجلسِ ترقی ادب کی طرف سے مولوی ذکاء اللہ کی دوسری دونوں اخلاقی کتابوں کو شائع کیا گیا تھا اور اب ’’تہذیب الاخلاق‘‘ کو مصنف کی اپنی بیان کردہ ترتیب کے برعکس بوجوہ سب سے آخر میں شائع کیا جا رہا ہے۔