ڈاکٹر عالم محمد خان کو افسانہ نگار اور نقاد کے حیثیت سے تو سبھی جانتے ہیں لیکن ’’اُردو افسانے میں رومانی رجحانات‘‘ کے زیرِ عنوان ایک عمدہ تحقیقی کتاب لکھ کر اور پنجاب یونیورسٹی سے پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل کر کے وہ دُنیائے تحقیق میں بھی در آئے ہیں۔ چونکہ ڈاکٹر صاحب بنیادی طور پر افسانہ نگار ہیں اس لیے اُنھوں نے افسانے کی صنف کو اپنی تحقیقی کاوشوں کے لیے منتخب کیا ہے لیکن ترقی پسند ہونے کے باوجود اُنھوں نے رومانیت کو اپنا موضوع کیوں بنایا؟ حقیقت یہ ہے کہ ترقی پسندی اور رومانیت میں کوئی بیّن تضاد نہیں ہے۔ رومانیت کی اصطلاح اُردو میں انگریزی سے آئی ہے۔ اٹھارہویں صدی کے آخر سے انیسویں صدی کے وسط تک انگلستان اور یورپ کے دوسرے ممالک میں تعقل، سائنس، رواج اور استناد کے خلاف بغاوت ہوئی۔ دیکھتے ہی دیکھتے رومانی طرزِ احساس پورے یورپ کے ادب پر چھا گیا اور کلاسیکیت کے ساتھ فنونِ لطیفہ کی دوسری اہم تحریک کے طور پر رومانیت کو قبول کر لیا گیا۔ اُردو میں رومانیت ایک رجحان کے طور پر بیسویں صدی کے آغاز سے نمایاں ہوئی۔
ڈاکٹر عالم خان نے رومانی افسانے کو اپنا موضوع بنا کر اُردو ادب کے ایک نہایت اہم رجحان کے آغاز و ارتقا کا جائزہ لینے کی سعی کی۔ تحقیق بڑی جانکاہی کا کام ہے مگر عالم خاں ان مراحل سے کامیاب و کامران گزر گئے ہیں۔ سب سے پہلے ڈاکٹر عالم خان نے رومانیت کی اصطلاح پر مفصل بحث کی ہے۔ رومانیت کی اصطلاح کو روشن کرنے کے بعد اُردو نثر میں رومانی اثرات کا پس منظر واضح کرتے ہوئے سجاد حیدر یلدرم کی نثر تک پہنچتے ہیں۔ کتاب کے آخری باب میں اُردو کے رومانی افسانے کے تمام نمایاں رجحانات کا جائزہ لیا گیا ہے۔ اُردو تحقیق و تنقید میں اس سے قبل رومانی افسانے کا مطالعہ اس جامعیت، تفصیل پسندی، تلاش، محنت اور کاوش سے کبھی نہیں کیا گیا۔ ڈاکٹر عالم خان کی یہ کتاب رومانی افسانے ہی کا مفصل جائزہ نہیں بلکہ رومانیت کی اصطلاح کا تمام تر پیچیدگیوں کے ساتھ مطالعہ بھی ہے۔ علاوہ ازیں یہ کتاب یورپ اور برصغیر میں رومانیت کی روایت کی جامع تاریخ بھی ہے۔ اُردو افسانے اور اُردو میں رومانی تحریک پر کام کرنے والا کوئی محقق اور نقاد آئندہ اس کو نظرانداز نہیں کر سکے گا۔