مشرقی ادبیات میں غزل کو باقی اصنافِ سخن سے ممتاز حیثیت حاصل رہی ہے۔ غزل اپنی صنفی خصوصیات کے باعث ہر دور میں مقبول رہی ہے لیکن اپنے معیارات پر اس نے کبھی سمجھوتہ نہیں کیا ہے۔ غزل کا فن جن عناصر سے تشکیل پاتا ہے ان میں تکنیک، ہیئت اور وزن کو بنیادی حیثیت حاصل ہے ۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو غزل ایک مشکل ترین شعری صنف ہے اور اس میں کلام کہنا جوئے شیر لانے سے کم نہیں۔ زیر نظر کتاب در اصل پی ایچ ڈی کے لئے لکھا ہوا تحقیقی مقالہ ہے جسے مصنف نے اپنے نگرانِ کار ڈاکٹر رفیع الدین ہاشمی کی نگرانی میں مکمل کیا ہے۔ اگرچہ یہ مقالہ ایک تعلیمی ضرورت کے تحت لکھا گیا ہے لیکن اس میں مصنف کا اپنا شوقِ مطالعہ جھلکتا ہے۔ اگرچہ غزل کے فنی سفر کو نہایت جامعیت کے ساتھ ایک مقالے میں سمیٹنا آسان نہیں ہے، اس کے باوجود مصنف نے غزل کے منظرنامے پر ہیئت، تکنیک اور وزن کے جتنے رنگ اُبھرتے رہے، انھیں عہد بہ عہد پیش کرنے کی کوشش کی ہے۔مقالے کو چھ ابواب میں تقسیم کیا گیا ہے۔ پہلا باب تکنیک، ہیئت اور عروض کے تعارف پر مشتمل ہے۔ دوسرے باب میں حالی سے ماقبل کی غزل کا فنی مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ مقالے کے تیسرے باب میں حالی سے اقبال تک کی غزل کا مطالعہ پیش کیا گیا ہے۔ چوتھا باب جدید غزل کے فنی مطالعے کو محیط ہے۔ پانچواں باب جدید تر غزل کے ہیئتی، تکنیکی اور عروضی مطالعے کا احاطہ کرتا ہے۔ جبکہ چھٹے باب میں غزل کے مستقبل کا امکانی جائزہ پیش کیا گیا ہے۔
غزل کی بدلتی ہیئت ، تکنیک اور وزن کو مقالہ کا مرکزی خیال بنا یا گیاہے۔ جس میں شعراء کے کلام کو عہد بہ عہد تبدیلیوں کا احاطہ کرنے کےساتھ ساتھ ان کی معنویت کو بھی ترتیب کے ساتھ پیش کیا ہے۔ جو غزل کی تبدیلیوں کو سمجھنے میں معاون ہیں ۔ اگرچہ اس مقالے میں تفصیل کی بہ جائے اجمال کا اہتمام کیا گیا ہے پھر بھی مباحث میں تشنگی کا احساس باقی نہ ہے۔ مصنف نے اپنے نقطۂ نظر کی تائید اور وضاحت کے لیے شعرا کے کلام اور ناقدین و محققین کی آرا سے بھرپور استفادہ کیا ہے جس کا ثبوت کتابیات کی فہرست سے عیاں ہے۔ کتاب کے آخر میں طویل اشاریہ بھی طلبہ اور اساتذہ کے لیے مفید ہے۔