اسمٰعیل امروہوی کی یہ دونوں مثنویاں لسانی اور ادبی اعتبار سے بڑی اہمیت کی حامل ہیں۔ ان سے اس نظریے کو بہت تقویت ملتی ہے کہ ابتدائی دور میں شمالی ہند کے اُردو شاعر اور ادیب محض دکنی اُردو ادب سے متاثر ہو کر اُردو کی طرف مائل نہیں ہوئے بلکہ ان کی تخلیقی سرگرمی خود شمالی ہند ہی کے حالات کی مرہونِ منت تھی۔ درحقیقت ان کی تصانیف کو ایک الگ مگر متوازی ادبی تحریک کا حصہ سمجھنا چاہیے۔ شمالی ہند سے قدیم اُردو ادب کے جو نمونے اب تک دستیاب ہوئے ہیں ان میں ان مثنویات کو اوّلین مقام حاصل ہے اور یقین ہے کہ اس کتاب کی اشاعت علمی اور ادبی حلقوں میں پسندیدگی کی نظر سے دیکھی جائے گی۔ اسمٰعیل امروہوی کا تعلق ایک ایسے خانوادے سے تھا جس کے متعدد افراد مغلیہ دور میں اہم منصوبوں پر فائز رہے تھے۔ اسمٰعیل امروہوی مغل بادشاہ اورنگ زیب عالمگیر کے عہد میں کسی علمی منصب پر مامور تھے۔ ان کا شمار امروہے کے علما کی صف میں ہوتا تھا۔ ان کی تصانیف میں صرف یہی دو مثنویاں زمانے کی دستبرد سے باقی بچی ہیں۔ ایک اور مثنوی ’’سوت ندی‘‘ کا صرف ذکر ملتا ہے۔ اسمٰعیل خالص شمالی ہند کے شاعر ہیں۔ ان کے کلام میں دکنی، گجراتی اور پنجابی الفاظ بھی موجود ہیں جو اس امر کا ثبوت ہیں کہ اُردو اُس وقت بننے سنورنے کے ابتدائی مراحل میں تھی اور طرح طرح کے اثر قبول کر رہی تھی۔ اس لحاظ سے دیکھا جائے تو اسمٰعیل کی شاعری کی لسانی اہمیت اور بڑھ جاتی ہے۔ وہ غالباً شمالی ہند کے اوّلیں قابلِ ذکر اُردو شاعر ہیں۔
ان مثنویوں میں ’’وفات نامۂ بی بی فاطمہ‘‘ اور ’’معجزۂ انار‘‘ کے موضوعات کا تعلق چونکہ بنیادی طور پر مذہبی عقاید سے ہے اس لیے ان میں تغزل کی رنگارنگی اور تخیل کی جولانی تو بے شک نہیں لیکن اسمٰعیل کے اندازِ بیان کی سلاست اور متانت قابلِ داد ہے۔ قدیم مخطوطوں کو صحیح صحیح پڑھنا اور سمجھنا نہایت ادق کام ہے۔ ان مثنویوں کو نائب حسین نقوی نے بڑی محنت اور توجہ سے مرتب کیا ہے اور متن کی صحت کا پورا پورا خیال رکھا ہے۔ بلاخوفِ تردید کہا جا سکتا ہے کہ یہ کتاب اُردو ادب کے ابتدائی دور کی تاریخ میں ایک گراں قدر اضافہ ہے۔