امانت لکھنوی شاعر، ڈراما نگار، سید آغا حسن نام، سید آغا رضوی کے بیٹے، لکھنؤ میں پیدا ہوئے۔ وہیں علومِ مروجہ کی تحصیل کی۔ شروع میں مرثیے کہتے اور میاں دلگیر سے اصلاح لیتے تھے۔ پھر غزل پر طبع آزمائی کرنے لگے۔ 1835ء میں بعمر بیس سال کسی بیماری سے زبان بند ہو گئی اور قوت گویائی سے محروم ہو کر خانہ نشین ہو گئے۔ دس برس تک یہی حالت رہی۔ 43۔1842 میں کربلا روانہ ہوئے 1844ء میں لکھنؤ واپس آئے تو ان کی زبان کھل گئی۔ امانت نے اردو کا پہلا ڈراما اندر سبھا لکھا۔ اس میں وہ استاد تخلص کرتے ہیں۔ امانت لکھنوی کی درج ذیل تصانیف ہیں: (۱) دیوان خزائن الفصاحت، 1861ء؛ (۲) گلدستہ امانت، 1852ء؛ (۳) اندر سبھا، 1848ء؛ (۴) واسوخت 1843ء۔ واسوخت نظم کی وہ قسم ہے جس میں عاشق اپنے معشوق کی بے وفائی، ظلم و ستم، رقیب کے ساتھ بے جا محبت اور جدائی کی مصیبت و تکالیف کی شکایتیں کرتا ہے۔ امانت نے صرف دو واسوخت لکھے۔ لکھنو کی بنیادوں پر امانت نے اپنے واسوخت کا عظیم الشان محل تعمیر کیا۔ ہرچند اس کا نقشہ پرانا تھا اور اس میں کوئی خاص ترمیم بھی نہ کی گئی تھی، لیکن مسالہ خالص لکھنو کی سرزمین سے جمع کیا گیا تھا اور واجد علی شاہ اس کے دور کا آئینہ دار تھا۔ امانت نے پہلا واسوخت اپنی جوانی کے آغاز میں لکھا جس کے ایک سو دس بند تھے۔ یہ ابھی پوری طرح منظرِ عام پر نہ آنے پایا تھا کہ اس کے ایک دوست نے اسے لے کر دبا لیا اور مانگنے کے باوجود واپس نہ کیا۔ یہی واسوخت آج ایک سو سترہ بندوں کی شکل میں محفوظ ہے۔ امانت کا دوسرا واسوخت اُردو شاعری میں طویل ترین واسوخت ہے اور دراصل یہی واسوخت ہے جس سے اس میدان میں امانت کی عظمت کا سکہ بیٹھا۔ یہ واسوخت تقریباً چار سال کے عرصے میں لکھا گیا جس دوران امانت کئی بار بیمار پڑا۔ البتہ معلوم نہیں وہ جذبہ کس قدر شدید ہوگا جس کے تحت یہ واسوخت باوجود طویل رکاوٹوں کے لکھا جاتا رہا اور اس قدر طوالت کے باوصف اس میں غیرمعمولی ناہمواری اور اظہار و بیان کی خرابی بار نہ پا سکی۔
یہ کتاب سیّد آغا حسن امانت لکھنوی کے انہی دو واسوخت پر مشتمل ہے جنہیں قیوم نظر نے مرتب کیا ہے۔ امانت کے یہ دونوں واسوخت ایک دوسرے کا تتمہ اور تکملہ ہیں اور اپنی رنگینیِ اسلوب، شیرینیِ اظہار اور رعنائی خیال کے لیے معروف ہیں۔ جہاں کہیں ذوق چیں بہ چیں ہونا چاہتا ہے، وہاں امانت کمال صنعت گری سے معاملے کو سنبھال لیتا ہے۔ پرانی وضع داری کی تمکین اور امانت کی بے لاگ معاملہ بندی باہمی کیا سمجھوتا کرتی ہے، یہ ایک دلچسپ داستان ہے اور فاضل مرتب قیوم نظر نے اس دبستان کو بہت دل فریب بنا دیا ہے۔