مولانا جلال الدین رومی مولاناے روم یا مولوی رومی کے نام سے یاد کیا جاتا ہے، اور علامہ اقبال جنہیں اپنا مرشد قرار دیتے تھے، ایک بہت بڑے نابغۂ روزگار، عارف و صوفی اور آسمانِ ادبِ فارسی کے ’’آفتابِ فروزندہ‘‘ ہیں۔ یوں تو رومی سے چند ایک دیگر تصانیف بھی یادگار ہیں لیکن ان کی مثنوی یا مثنویِ معنوی کو جو شہرتِ عام اور بقاے دوام میسر آئی اس نے ان کی ان تصنیفات کو بڑی حد تک ثانوی حیثیت کے خانے میں ڈال دیا۔ مولانا رومی کی مثنوی کو فارسی زبان کا قرآن کہا گیا ہے کیونکہ اس میں دیگر موضوعات کے علاوہ قرآنی آیات کی تشریح و تفسیر بھی کی گئی ہے۔ اخلاق و عرفان و تصوف کے بعض اہم مسائل پیش کرتے ہوئے بھی قرآنی آیات اور احادیثِ رسولِ مقبول صلی اللہ علیہ وسلم سے استفادہ کیا گیا ہے۔
مثنوی رومی چھ دفاتر پر مشتمل ہے اور چھ کے چھ دفتر بہت سی آیاتِ قرآنی اور احادیثِ مبارکہ سے مزین ہیں اور ظاہر ہے قرآن و حدیث کے ساتھ فخرِ موجودات کا ذکرِ خیر ایک لازمی امر ہے، چنانچہ اس کتاب ’’ذکرِ رسولؐ مثنویِ رومی میں‘‘ ڈاکٹر خواجہ حمید یزادنی نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ذکرِ خیر کو موضوع بنایا ہے۔ رسول اللہؐ کا ذکر رومی کی مثنوی میں جابجا ملتا ہے اور کئی حوالوں سے ملتا ہے، جسے مصنف نے مختلف زاویوں سے جانچا ہے۔ شروع میں مصنف نے مثنوی کا مطالعہ شروع کیا اور مختلف موضوعات پر خامہ فرسائی کی جو مختلف مجلات میں مقالات کی صورت شائع ہوتے رہے۔ تین اقساط موضوعِ ہذا یعنی ذکرِ رسولؐ مثنویِ رومی میں پر بھی چھپیں، تاہم بعد ازاں پورے چھ دفاتر کا احاطہ کر کے اس موضوع پر تفصیل سے لکھا گیا جسے کتابی صورت میں پیش کیا گیا ہے۔