اُردو کے انیسویں صدی کے نامور صاحبِ اسلوب شاعر ابراہیم ذوق اپنے عہد کے مقبول ترین اور صاحبِ وجاہت شاعر اور استادِ وقت تھے۔ اپنے عہد میں ان کی شاعری اور شاعرانہ شہرت کی جو شان تھی، وہ ہماری تاریخِ ادب میں بہت کم شعرا کو نصیب ہوئی ہے۔ غزل کے دوش بدوش قصیدے میں ممتاز ہوئے اور ’’خاقانیِ ہند‘‘ کہلائے۔ اپنے معاصرین میں نہایت احترام کی نگاہ سے دیکھے جاتے تھے۔ آزاد، داغ اور ظفر جیسے نامور تخلیق کار انھی کے دامنِ فیض سے گہر اندوز ہوئے۔ اس کتاب میں ڈاکٹر تنویر احمد علوی نے ذوق کی متنوع شعری خدمات کا نہایت خوبی سے احاطہ کیا ہے۔ زبان کے رقبے کو وسیع کرنے میں ذوق کی خدمات ناسخ سے بڑھ کر ہیں۔ ذوق کا کلام ٹھیٹھ اُردو کے جلوے دکھاتا ہے۔ ان کے شعری سرمایے اور تربیتِ تلامذہ کا فیض بیسویں صدی کے نامور شعرا تک پہنچا۔ ڈاکٹر علوی کا یہ مقالہ ذوق کی کھوئی ہوئی عظمت کی بحالی کی ایک بھرپور کوشش ہے، اس لحاظ سے بہت قابلِ داد ہے۔ مصنف نے اس کتاب میں ذوق کی حیات، ان کے کردار، عہد، غزل گوئی، قصیدہ نگاری، زبان و ادب کے ضمن میں ان کی خدمات اور ان کے تلامذہ کا جائزہ لیا ہے۔ یہ ذوق کا پہلا مربوط اور ہمدردانہ تجزیہ ہے۔
اس کتاب میں سیّد عابد علی عابد کا مقدمہ بڑا فکر افروز ہے۔ انھوں نے بڑی عمدگی سے اس خیال کی نفی کی ہے کہ متاخر مغلیہ عہد سراسر زوال کا عہد تھا۔ ٹائن بی سے مستعار الفاظ کا حوالہ دیتے ہوئے ان کا کہنا ہے کہ مقتدر اقلیتیں اس عہد میںبھی موجود تھیں جو معاشرے میں مثبت قدروں کا احیا کرتی ہیں اور ان اقلیتوں نے بہرحال اپنا کردار ادا کیا ہے۔ کتاب کا آخری باب میں ذوق کے نایاب کلام کو پیش کیا گیا ہے۔ اسی طرح کتاب کے آخر میں مصنف نے کتابیات کا اہتمام کیا ہے جس سے پتہ چلتا ہے کہ اس مقالے کی ترتیب و تزئیں میں کس قدر وسیع مطالعہ کیا گیا ہے۔ یہ کتاب ’’ذوق، سوانح اور انتقاد‘‘ محض طلبہ اور اساتذہ ہی کے لیے نہیں بلکہ ادب دوست حضرات کے لیے بھی مفید ہے۔